• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کچھ وزراء کی طرف سے آنے والے دو اہم بیانات اور گمشدہ افراد کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات لائق ِ تبصرہ ہیں۔ وزیر ِ مالیات اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر پارلیمانی ناقدین جنرل سیلز ٹیکس ، جسے سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کیا گیا تھا اور جس سے قومی خزانے میں پچاس بلین روپوں کا اضافہ ہونا تھا ، میں اضافے کو واپس لینا چاہتے ہیں تو اُنہیں چاہئے کہ وہ سیکرٹری دفاع کو بلائیں اور اُس سے درخواست کریں کہ وہ دفاعی بجٹ میں سے تنخواہ کی مد کے علاوہ ہونے والا پچاس بلین خرچ کم کرلیں۔
یہ بیان دو حوالوں سے اہم ہے: پہلی بات یہ ہے کہ مسٹر اسحاق ڈار وفاقی وزیر ہونے کے باوجود اس سلسلے میں خود کچھ کرنے سے قاصر ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ نو از شریف صاحب جو وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ وزارت ِ دفاع کا قلم دان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں، بھی دفاعی اداروں سے یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ قوم کی مالی حالت کے پیش ِ نظر اپنے بجٹ میں کچھ کمی کر لیں۔ اس سال فوج کے لئے رکھی جانے والی رقم ، جو کہ 1014 بلین روپے ہے، کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: دفاعی بجٹ کے لئے 627.2 بلین روپے، پنشن کی مد میں132.7 بلین روپے، کولیشن سپورٹ فنڈ سے ملنے والے70 بلین روپے اور دیگر اخراجات کے لئے 150 بلین روپے۔ اس طرح یہ رقم کل قومی بجٹ کا 28.2 فیصد ہے۔
اب دوسوالات پیدا ہوتے ہیں: مسٹر ڈار نے یہ کیوں سوچتے ہیں کہ اگر کٹوتی کی جانی ہے تو یہ سویلین اخراجات کے بجائے دفاعی اخراجات کی مد میں کی جائے؟اور اگر ایسا کرنا ناگزیر ہے تو پھر حکومت تذبذب کا کیوں شکار ہے؟ان سوالوں کا جواب بہت سیدھا سادہ ہے۔ مسٹر ڈار نے پہلے ہی سول حکومت کے ہر قسم کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کر دی ہے چنانچہ وہ عام شہریوں کے لئے بنائے گئے فلاحی منصوبوں اور امدادی اسکیموں میں مزید کمی کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اُن کو یہ بھی احساس ہے کہ فوج حالت ِ جنگ میں ہے۔ قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی یہ ایک مہنگی جنگ ہے جس کے لئے آنے والے مہینوں میں فوجی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت پیش آئے گی چنانچہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس حساس جنگ کے حوالے سے کسی کوتاہی کا الزام بھی اپنے اُوپر نہیں لینا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ چاہتے ہیں کہ فوجی قیادت ملک کی معاشی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے عوامی مفاد میں رضاکارانہ طور پر مناسب کمی کر لے۔ اس بیان کے حوالے سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ فوج، جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے، سال کے آخر میں ضمنی بجٹ کا تقاضا نہیں کرے گی۔
اب وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل شجاع پاشا کے حوالے سے ایک جارحانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے…”ہمیں فوج اور اس کی قیادت کو اس طرح کے افسران سے پاک کرنے کی ضرورت ہے“، پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا…”فوجی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جانا چاہئے۔“چوہدری نثار صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں دفاعی اور خفیہ اداروں کی طر ف سے کی جانے والی ناقابل ِ قبول زیادتیوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ وہ اتنے چراغ پا کیوں ہیں؟
اصل میں بات یہ ہے کہ جنرل (ر) پاشا صاحب کے دور میں صحافی حضرات پر بہت سختی کی گئی، واشنگٹن میں ہمارے سابق سفیر ،مسٹر حقانی کا میمو گیٹ کے حوالے سے تعاقب کیا گیا یہاں تک کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑا کہ ”ریاست کے اندر ریاست “ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اُسی دور میں جب دو مئی2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز نے کارروائی کرتے ہوئے بن لادن کو ہلاک کیا تو جنرل پاشا کی طرف سے پارلیمینٹ کو دی جانے والی بریفنگ کو چیلنج کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ چوہدری نثار ہی تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ایم ایل (ق) نے جنرل پاشا پر الزام لگایا تھا کہ وہ درپردہ پی ٹی آئی کی حمایت کررہے ہیں۔
درحقیقت چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب اور سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان بھی غائب شدہ افراد کے کیس کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کی سربراہی میں غائب شدہ افراد کے کیسز کا جائزہ لینے کے لئے کمیشن آف انکوائری کے سامنے757 کیس ہیں۔ اس کمیشن نے قانون نافذ کرنے والے اداروں، جیسا کہ ایف سی، آئی بی، آئی بی آئی ، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے خلاف 117 کیس فائل کرنے کی سفارش کی ہے۔ ان کیسز میں پاک فوج کے حاضرسروس اعلیٰ عہدیداران کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ اب یہ سپریم کورٹ، چوہدری نثار، جسٹس جاوید اقبال اور سینیٹر اسحاق ڈار پر ہے کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹتے ہیں۔ اس معاملے پر حکومت کا کیا کردار ہونا چاہئے؟
ایک صورت تو یہ ہے کہ فوج کی طاقتور ایجنسیوں کو سول کنٹرول میں لایا جائے تاہم پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کا سابقہ تجربہ یہ کہتا ہے کہ ان طاقتور اداروں کے ساتھ براہ راست چھیڑ خانی نہ کی جائے۔ بہترین حکمت ِ عملی یہ ہے کہ فوج کو تمام اہم معاملات پر سول حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ میں شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم نیشنل سیکورٹی کونسل جو پالیسی سازی اور اہم فیصلہ کرنے کے لئے سیکرٹریٹ رکھتی ہو، کا قیام ہے۔ دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ سول اور دفاعی ادارے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے سچائی کا سامنا کریں اور نئی جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنا کردار اداکریں۔
تازہ ترین