شہباز شریف، قائداعظم ہیں اورنہ طیب اردوان بلکہ شاید شہباز شریف سیاسی لیڈر کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتے ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ سیاسی لاٹ میں وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرنے والے ایک اچھے منتظم یا ایڈمنسٹریٹر ہیں۔
حالانکہ بطور منتظم ان کا طریق کار بھی مثالی نہیں کہ وہ سیاسی ساتھیوں کی بجائے بیوروکریٹس پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور سیاسی ایڈمنسٹریٹر ہوکر بھی ون مین شو چلاتے ہیں ۔اسی لئے ان کے دورِ اقتدار میں بھی ،مَیںاُن کا شدید ناقد رہا اور لاہور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر ان پر خوب تنقید بھی کی ۔میاں نواز شریف کی نسبت میاں شہباز شریف زیادہ مطالعہ کرتے ہیں ۔
ان کا مطالعہ بھی ہمہ پہلو ہے۔ جتنے میاں نواز شریف لوگوں سے رابطہ رکھنے میں کمزور یعنی بیڈ کمیونیکیٹر (Bad Comunicator) ہیں تو شہباز اتنےہی اچھے کمیونیکیٹر ہیں۔ ان تک رسائی آسان ہوتی ہے اور وہ بھی لوگوں تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ لیگی ووٹرز کے جذبات کا محور اور مرکز شہباز شریف نہیں بلکہ نواز شریف اور مریم نواز ہیں۔
مخالفین کی نفرت کا نشانہ ہیں تو بھی نواز شریف ہیں اور مسلم لیگ کے حامیوں کی محبتوں اور جذبات کا محور ہیں تو بھی نواز شریف جبکہ نواز شریف کے بعد یہ دونوں حیثیتیں مریم نواز کو مل رہی ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ سیاست میں مداخلت کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اس وقت پاکستان کا پاپولر بیانیہ ہے ۔
جو بندہ اس کو اپناتا ہے ، عوام کی صفوں میں اس کا گراف اوپر جاتا ہے اور جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا یا پھر اس کا مہرہ نظر آتا ہے، تواقتدار اسے مل جاتا ہے مگر انٹیلی جنشیا ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی غیرمقبول ہوجاتا ہے ۔اب چونکہ ایک عرصہ سے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف صاحبہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علامت بنے ہوئے ہیں ، اس لئے ان کی مقبولیت بڑھی ہے جبکہ میاں شہباز شریف قول اور عمل دونوں حوالوں سے اس بیانیے کی مخالف سمت میں چلتے نظر آتے ہیں، یوں بھی وہ اپنے بھائی اور بھتیجی کے مقابلے میں غیرمقبول ہیں بلکہ اس بنیاد پر ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔
لیکن ان سب حقائق کے باوجود اس وقت عمران خان اگر پاکستان میں کسی ایک سیاسی لیڈر سے زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں تو وہ میاں شہباز شریف ہی ہیں ۔ ان کی حکومت اور پارٹی کا نمبرون نشانہ اس وقت میاں شہباز شریف ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ وہ اپنے اقتدار کے لئے نواز شریف کو خطرہ سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کو اور نہ آصف زرداری کو ۔ اب تک خان صاحب کو یہ زعم تھا کہ ان کا کوئی متبادل نہیں لیکن اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ شہباز شریف ان کا متبادل ہیں۔
عمران خان جانتے ہیں کہ وہ اقتدار تک اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کے سہارے پہنچے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ زرداری صاحب کی حکومت میں جب اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی سے جان چھڑانے لگی اور میاں نوازشریف پہلے سے مخالف چلے آرہے تھے تو ان کی لاٹری نکل آئی۔
چنانچہ انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کی تابعداری شروع کردی۔ ہر معاملے میں اس کا وکیل اورمہرہ بننے کو تیار ہوئے اور بالآخر 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کی منزل حاصل کرلی۔ وہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی پر نہ صرف سکھی رہتے ہیں بلکہ دن رات اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کے سیاسی حریف اور بالخصوص نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالت جنگ میں رہے ۔
چنانچہ اگر کسی فریق کی طرف سے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ اسے سبوتاژ کرتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال آرمی چیف کی ایکسٹنشن کا معاملہ ہے ۔شہباز شریف کی کوششوں سے میاں نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اپنے لوگوں سے ان کی حمایت میں ووٹ ڈلوایا لیکن اگلے روز انہوں نے فیصل واوڈا کو بوٹ تھما کر ٹی وی ٹاک شو میں بھیج دیا تاکہ غیرت دلا کر نون لیگ کو دوبارہ لڑایا جائے اور ماشااللہ چند ہی روز بعد دونوں فریقوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف جنگ گرم کردی۔
اِس میں مگر شبہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی وقت یہ سوچ سکتی ہے کہ ایک ایسے سیٹ اپ، جو ملک چلانے کی اہلیت سے عاری ہے ، کی بجائے کیوں نہ شہباز شریف کو آگے لایا جائے جو نہ صرف انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ عمران خان کی طرح ان کے لئے دردسر بھی نہیں بنیں گے ۔
انہیں یہ بھی خوف لاحق ہے کہ جیل سے باہر رہ کر وہ اسٹیبلشمنٹ اور اپنے بڑے بھائی کے درمیان پل بن سکتے ہیں اور جس دن شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس دن خان صاحب سے جان چھڑانے کا عمل شروع ہوجائے گا۔ہم جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا نمبرون مسئلہ معیشت کی تباہی اور بیڈگورننس ہے جس پر قابو پانے کے لئے مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھنے والے منتظم کی ضرورت ہے اور عمران خان سمجھتے ہیں کہ یہ ضرورت اگر اس وقت کوئی پوری کرسکتا ہے تو وہ بھی شہباز شریف ہیں۔
تیسرا بڑا عامل پاکستان کے دوست ممالک میں شہباز شریف کی پسندیدگی ہے ۔کسی اور کو نہیں تو عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی حکومت سے چین جیسا دوست سخت نالاں ہے ۔ سی پیک کا جو حشر ان کی حکومت میں کیاگیا ،اس کی وجہ سے چینی قیادت شدید دکھی ہے جبکہ دوسری طرف وہ شہباز شریف کو پسند کرتی ہے۔
چینی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور نہ ناراضی کی صورت میں چھوٹے ممالک کی طرح پاکستان جیسے دوستوں سے متعلق ردعمل ظاہر کرتے ہیں لیکن جیل سے رہائی کے فورا بعد چینی سفیر کی طرف سے کھانے پر دعوت اور پھر چین کے دورے کی دعوت دے کر چینی سفارتخانے کے غیرروایتی اور غیرمعمولی قدم کے ذریعے یہ پیغام دیا گیاکہ شہباز شریف آج بھی ان کے فیورٹ ہیں۔عرب ممالک کے بھی وہ خاصے قریب ہیں۔
مذکورہ سب عوامل اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کے اقتدار کے لئے فیورٹ بن جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے بھائی ہیں۔ شہباز شریف سوچ اوربیانیے کے اس اختلاف کے باوجود اپنے بھائی سے بے وفائی کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بات انہوں نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ قول و عمل سے ثابت کی ہے اور اب بھی اسی جگہ کھڑے ہیں ۔ہاں البتہ وہ منت ترلہ کرکے اپنے بھائی اور بھتیجی کو ، اپنا بیانیہ بدلنے پر آمادہ کرنے کے لئے ہمہ وقت محنت کرتے رہتے ہیں ۔
دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کو اپنا بیانیہ اور حکمت عملی بدلنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں؟ اگر کامیاب ہوئے تو عمران خان کا کھیل ختم اور اگر ناکام ہوئے تو نہ صرف ان کا کھیل کامیابی سے جاری رہے گا بلکہ حسب سابق نواز شریف کےساتھ شہباز شریف بھی رگڑے جائیں گے۔