• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید نصاب سازی، طلبہ کا بہتر مستقبل دینی مدارس کیلئے چیلنج ہے

بات چیت: منوّر راجپوت

عکّاسی: اسرائیل انصاری

وفاقی حکومت نے گزشتہ دنوں دینی مدارس کے کئی نئے تعلیمی بورڈز(وفاق) کے قیام کی منظوری دی، جس کی بنیاد پر مذہبی حلقوں میں خاصا بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف اِس اقدام کو وقت کی ضرورت قرار دیا جا رہا ہے، تو دوسری جانب، ناقدین اِس میں مختلف سازشیں تلاش کر رہے ہیں۔ہم نے سابق چیئرمین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن، مجلسِ علمی فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر، معروف مذہبی اسکالر، ڈاکٹر عامر طاسین سے اِس موضوع پر خصوصی گفتگو کی۔ 

ڈاکٹر صاحب ایک معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی دینی مدارس کے تدریسی، انتظامی اور امتحانی نظام پر گہری نظر ہے۔ اُنہوں نے 2018 ء میں اسلامی نظریاتی کاؤنسل میں بھی دینی مدارس کے تاریخی پس منظر، مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے ایک تفصیلی تحقیقی پریزنٹیشن دی تھی، جسے بہت اہمیت حاصل ہوئی۔

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان، تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: میرے والد، علّامہ محمد طاسینؒ اپنے دَور کے ممتاز عالم دین تھے، جب کہ والدہ، معروف دینی ادارے جامعۃ العلوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی کے بانی، علّامہ محمّد یوسف بنوریؒ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ والدنے ہندوستان کے دینی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور پھر پاکستان آگئے۔ 

یہاں کچھ دینی اداروں میں پڑھایا، بعدازاں مجلسِ علمی سے وابستہ ہوگئے، جو اشاعتِ علمِ حدیث کے حوالے سے برّصغیر کا معروف ادارہ ہے۔ والد مرحوم کئی کتب کے مصنّف تھے اور اُن کا خاص میدان معاشیات رہا۔ اسلامی نظریاتی کاؤنسل، انکوائری کمیشن برائے خواتین، ہم درد فاؤنڈیشن، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اقبال اکیڈمی، جامعہ کراچی اور بلوچستان یونی ورسٹی سے بھی مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔

مَیں نے درسِ نظامی کی تمام بنیادی کتب کی تعلیم والد مرحوم ہی سے حاصل کی اور عصری علوم بھی حاصل کرتا رہا۔ ایم اے اسلامیات، ایم اے بین الاقوامی تعلقات، ایل ایل بی اور تقابلِ ادیان میں پی ایچ ڈی کی۔ سات مرتبہ قومی سیرت صدارتی ایوارڈ جیتنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔وزارتِ مذہبی امور کے ادارے ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘سے بحیثیت چیئرمین وابستہ رہا۔ دینی مدارس میں تعلیمی اور انتظامی اصلاحات کے حوالے سے کئی پراجیکٹس پر کام کرچُکا ہوں۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے بورڈ آف گورنر کا رکن ہوں، ہم درد شوریٰ فاؤنڈیشن اور کئی اہم علمی اداروں کی اعزازی رکنیت حاصل ہے، جب کہ 90 سالہ قدیم ادارے، مجلسِ علمی کے ساتھ گزشتہ 30 سال سے منسلک ہوں۔

جدید نصاب سازی، طلبہ کا بہتر مستقبل دینی مدارس کیلئے چیلنج ہے
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: آپ نے اسلامی نظریاتی کاؤنسل میں دینی مدارس کے حوالے سے جو پریزنٹیشن پیش کی تھی، اُس کے اہم نکات کیا تھے؟

ج: اسلامی نظریاتی کاؤنسل کے چیئرمین، ڈاکٹر قبلہ ایاز نے پاکستان کے دینی مدارس پر تاریخی حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔اس پریزنٹیشن میں متحدہ ہندوستان، خاص طور پر پاکستان میں مدارس کے قیام کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ان کے نصابی، انتظامی، مالی، رجسٹریشن اور مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے متعلق مسائل کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ۔ 

نیز، یہ بھی بتایا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے بورڈز(وفاق) بننے کی وجوہ کیا تھیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ مُلک میں کچھ ایسے بھی مدارس تھے، جو پانچوں وفاق میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے تھے اور اُن کے اپنے اپنے بورڈ تھے۔ ایسے مدارس کے بارے میں پہلی مرتبہ تفصیلی طور پر آگاہ کیا تھا کہ یہ نئے وفاق کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ اُن کی تعداد کتنی ہے اور اُن کے ساتھ کتنے مدارس ملحق ہیں؟

س: مدارس کے ابتدائی وفاق کب بنے اور اُن کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

ج: قیامِ پاکستان کے موقعے پر یعنی 1947ء میں یہاں300 کے لگ بھگ مدارس خدمات انجام دے رہے تھے، جن کا مختلف مسالک سے تعلق تھا۔یہ اپنے تعلیمی نصاب سے لے کرامتحا نات اور اسناد کی تقسیم تک خود مختار تھے۔ جیسے جیسے آبادی بڑھتی رہی، مدارس میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ جیّد و ممتاز اہلِ علم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اپنے اپنے مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کو ایک مرکز کے تحت متحد کیا جائے تاکہ نصاب سازی، امتحانات اور اسناد میں نظم وضبط قائم ہوسکے۔ 

اِسی تناظر میں ساٹھ کی دہائی میں دینی مدارس کے پانچ معروف وفاق وجود میں آئے۔80ء کی دہائی میں صدرِ مملکت، جنرل محمّد ضیاء الحق کی ہدایت پر یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن نے مذکورہ پانچ وفاق کی آخری سند، یعنی شہادت العالمیہ کو ایم اے اسلامیات کے مساوی قرار دے دیا، جس سے دینی مدارس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ 

اِس مساوی سند کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو سرکاری اسکولز، کالجز میں بحیثیت اسلامیات اساتذہ اور سرکاری مساجد میں امام و خطیب بننے کا موقع حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں،وہ مساوی سند کی بنیاد پر یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلے کے بھی اہل ہوگئے۔

س:ان وفاق نے ابتدائی درجات کا معادلہ کیوں نہ لیا؟

ج: کچھ ایسے مضامین نظر سے گزرے ہیں، جن کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے ثانویہ عامہ، خاصہ عالیہ اور عالمیہ کا معادلہ دینے کی بھی بات کی گئی تھی، لیکن غالباً کچھ علمائے کرام کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر مدرسے کے طلبہ نے ثانویہ عامہ اور خاصہ کی اسناد کا معادلہ( جو میٹرک اور انٹر ہے) حاصل کرلیا، تو ممکن ہے وہ مدارس کی تعلیم چھوڑ کر کالج، یونی ورسٹی چلے جائیں۔ 

لہٰذا، آخری سند، یعنی شہادت العالمیہ ہی کے معادلے میں بہتری سمجھی گئی۔ ویسے بھی دینی نظامِ تعلیم کے ساتھ عصری علوم کا پڑھانا کئی نام وَر علمائے کرام کے نزدیک پسندیدہ عمل نہ تھا۔ بہت سے علمائے کرام کو دینی علوم میں عصری علوم کی آمیزش سخت ناپسند تھی اور کچھ کے نزدیک تو بنات(لڑکیوں) کے مدارس بنانا بھی کوئی زیادہ اچھا عمل نہیں تھا، لیکن وقت نے سب بدل دیا۔ نئے حالات اور انسانی ضرورت کے تحت بہت سے اہلِ علم و دانش نظریۂ ضرورت کے تحت بہت کچھ قبول کرنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ اِس میں کوئی برائی نہیں، بلکہ یہ تو دانش مندی اور دُور اندیشی کی علامت ہے۔

س: آپ نے کاؤنسل کی پریزنٹیشن میں نئے وفاق کے بارے میں بھی کوئی تجویز پیش کی؟

ج: جی بالکل تجویز پیش کی تھی۔ مَیں جب پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین کے عُہدے پر فائز تھا، تو کئی چیلنجز درپیش تھے۔ ایک بڑا چیلنج پانچ معروف وفاق کے علاوہ دینی مدارس کے جو بورڈز موجود تھے، اُنہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے رجسٹر کرنا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اُن مدارس پر توجّہ دی جائے، جو ہزاروں کی تعداد میں اپنے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

لہٰذا، سب سے پہلے اتحاد المدارس مردان، وحدت المدارس پنج پیر، منہاج المدارس، جماعت الدعوۃ کے مدارس، دعوتِ اسلامی کنز الایمان کے مدارس، تبلیغی جماعت کے مدارس اور دیگر بورڈز کے ذمّے داروں سے ملاقاتیں کیں اور اُنہیں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ رجسٹر ہونے کی پیش کش کی، جسے بڑے پیمانے پر قبول کیا گیا۔

س:تو آپ نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ کتنے مدارس یا بورڈز کا الحاق کیا؟

ج: پہلے مرحلے میں اتحاد المدارس، مردان نے 8سو مدارس پر مشتمل اپنے بورڈ کی جانب سے مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے نام درخواست پیش کی۔پھر وحدت المدارس، پنج پیر بھی 11 سو مدارس کے ساتھ رجسٹرہونے کے لیے تیار تھا۔ مَیں نے اپنے بورڈ اجلاس میں ایجنڈا آئٹم میں نئے مدارس اور وفاق کے الحاق کا مسئلہ رکھا، ہمیں منظوری بھی حاصل ہوئی، مگر بیورو کریسی انتظامی اور بجٹ کے معاملات میں رکاوٹ بن گئی۔ 

اگر حکومتی تعاون شاملِ حال رہتا، تو مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ8 ہزار مدارس کے وفاق رجسٹر ہوجاتے اور ممکنہ طور پر کچھ پرانے وفاق کے ساتھ جڑے مدارس بھی ان نئے وفاق کے ساتھ شامل ہوجاتے یا پھر اُن کے بھی نئے بورڈز بنا دیے جاتے۔

س: کیا اِس اقدام پر معروف وفاق نے کوئی اعتراض کیا؟

ج: جب مختلف غیر رجسٹرڈ وفاق کے ذمّے دارن سے ملاقاتیں کیں، تو اخبارات میں طرح طرح کی خبریں آنے لگیں۔کئی ایک نے سازشی تھیوریز بھی گھڑیں، لیکن ان سب کے باوجود پرانے وفاق کی جانب سے مرکزی سطح سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، البتہ اسلام آباد میں موجود پرانے وفاق کے ساتھ منسلک کچھ نچلی سطح کے ذمّے داران کا کہنا تھا کہ’’ ڈاکٹر صاحب! آپ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، وہ درست نہیں۔‘‘

میرا مختصر جواب یہی ہوتا کہ’’ مَیں اُس آرڈی نینس اور ایکٹ کا پابند ہوں، جس کے مطابق اپنے امور انجام دینے ہیں۔‘‘ مَیں سمجھتا ہوں، کچھ لوگوں میں غلط فہمیاں ضرور تھیں، مگر میرا تعلق تمام ہی بڑے اہل علم سے رہا اور اُن کی اعلیٰ ظرفی کا بھی قائل ہوں۔ مَیں نے ہمیشہ اصلاحی طرزِ عمل کی بنیاد پر مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلی کی نہیں، بلکہ بہتری اور طریقۂ تدریس پر بات کی ہے۔

س: جو مدارس پانچ معروف وفاق کے ساتھ ملحق نہیں، اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جعلی اسناد تقسیم کرتے ہیں؟

ج: میرا خیال ہے، معترضین کو اس سوال کا بہتر اور معقول جواب وہی دے سکتے ہیں، جو اپنے تعلیمی نظام چلا رہے ہیں، البتہ میری معلومات کے مطابق مجموعی طور پر کسی وفاق پر یہ الزام لگانا مناسب عمل نہیں کہ وہ درسِ نظامی کی جعلی اسناد تقسیم کرتا ہے۔

س: اِن دنوں مدارس کے جو نئے وفاق بن رہے ہیں، اُن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: چوں کہ ہر ایک کے سوچنے، سمجھنے اور دیکھنے کا زاویہ مختلف ہوتا ہے، اِس لیے اِس معاملے پر بھی بہت سی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔البتہ، یہ ذہن نشین رہے کہ مدارس کو رجسٹرکرنا اور اُنہیں مرکزی دھارے میں لانا حکومت ہی کا کام ہے۔ اور موجودہ حالات میں جو نئے وفاق بن رہے ہیں، یہ اُسی تسلسل کا حصّہ ہے، جس کے لیے مَیں نے کوشش کی تھی۔

س: مدارس کے طلبہ کو سیاسی جلسے جلوسوں میں بھی لایا جاتا ہے، کیا حکومتی اقدام کا اِس معاملے سے بھی کوئی تعلق ہے؟

ج: ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو۔ تاہم، اگر اِس اعتراض کو درست مان بھی لیا جائے، تو یہ دعویٰ کوئی کیسے کرسکتا ہے کہ جو نئے وفاق بنے ہیں، وہ کبھی کسی مذہبی جماعت کے سیاسی آلۂ کار نہیں بنیں گے؟سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا مدرسے کا جو طالبِ علم یا استاد ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے، وہ کسی جماعت کا حصّہ نہیں بن سکتا؟ کیا مدارس کو سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینا چاہیے؟ یقیناً یہ ایک اہم اور دل چسپ موضوع ہے، اِس پراہلِ مدارس کو ایک علمی مباحثہ کروانا چاہیے۔

س: یہ بتائیے، اب تو مدارس کے کم وبیش 15 وفاق بن چُکے ہیں، کیا ان کے قیام سے مدارس کے نظام اور نصاب میں بہتری آسکے گی؟

ج: میرا تو یہی اندازہ ہے کہ نئے وفاق بننے سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، البتہ سب کو نصاب سازی اور طلبہ کے بہتر مستقبل کا چیلنج ضرور درپیش ہوگا۔ جو بورڈ یا وفاق ایسا نصاب مرتّب کرے گا، جو عصری تقاضوں کی ضرورت پوری کرے اور اُس میں جدید طریقۂ تدریس کے اسلوب موجود ہوں، کیریئر کاؤنسلنگ ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ اساتذہ جدید طریقۂ تدریس کے مزاج کے مطابق ڈھل جائیں، تو وہی وفاق کام یاب ہوگا۔مختلف وفاق کے درمیان طلبہ کے بہتر مستقل کے لیے بہتر نصاب سازی کا مقابلہ، ایک اچھا رجحان ثابت ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کون اِس دوڑ میں حصّہ لیتا ہے اور کون آگے بڑھتے رہنے کی پوزیشن میں رہے گا۔

س: اہلِ مدارس کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: پہلی بات تو یہ کہ جتنے بھی وفاق قائم ہوچُکے یا مزید ہوں گے، سب میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رہنی چاہیے۔ اُنہیں سوچنا ہوگا کہ وہ عصری تقاضوں کے مطابق اپنے طلبہ کے لیے کیا بہتری لا سکتے ہیں۔ اِس بات کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے، یہ دَور شارٹ کورسز کا ہے، مدارس کو بھی اِس طرف آنا ہوگا۔ آن لائن اور انٹرنیٹ کے دَور میں کتابوں کا بوجھ کم سے کم ہونا چاہیے۔ 

دینی علوم کی ترویج میں جدید طریقہ اختیار کرنا، وقت بچانے کے مترادف ہوگا۔ ہمیں تمام مکاتبِ فکر کے اہلِ علم کو نہ صرف اپنا دوست بنانا ہوگا، بلکہ اُن کے ساتھ کھڑا بھی رہنا ہوگا تاکہ معاشرے میں نفرت کی بجائے یک جہتی کی فضا قائم ہو۔ 

دینی مدارس کو اب ایک ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو عصری مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو، نظامِ معیشت اور نظامِ ریاست میں بھی شامل ہونے کی اہلیت رکھتی ہو۔اور دوسری جانب، ایسے علمائے کرام بھی تیار ہوں، جو دینی علوم کے ماہر، بہترین مبلغ، مصنّف اور معاشرے میں محبّت کے پھول کِھلانے والے ہوں۔

تازہ ترین