• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بھارت جھڑپیں، دنیا نے پاکستان کے پاس چینی ٹیکنالوجی کی جھلک دیکھ لی، رپورٹ

چینی ساختہ جے 10 طیارہ—فائل فوٹو
 چینی ساختہ جے 10 طیارہ—فائل فوٹو

پاک بھارت جھڑپوں کے دوران پاکستان نے چینی ساختہ طیاروں سے بھارت کے پاس موجود فرانسیسی ساختہ طیاروں کو گرایا تو دنیا نے پہلی مرتبہ چینی ٹیکنالوجی کی جھلک دیکھ لی۔

امریکی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے عالمی سطح پر پہلی مرتبہ چینی عسکری ٹیکنالوجی کو مغربی ساختہ دفاعی ہتھیاروں کے مقابلے میں حقیقی میدانِ جنگ میں آزمانے کا موقع فراہم کیا ہے، اور چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص پہلے ہی تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔

چین کی ایوی ایشن انڈسٹری کارپوریشن آف چائنا (اے وی آئی سی) کے ذیلی ادارے چینگڈو ایئرکرافٹ کے حصص اس ہفتے اس وقت 40 فیصد تک بڑھ گئے جب پاکستان نے چینی ساختہ جے-10 سی طیاروں کی مدد سے بھارتی لڑاکا طیاروں، جن میں 3 فرانسیسی ساختہ رافیل جبکہ دو روسی ساختہ مگ 29 اور ایس یو 30 شامل تھے، کو مار گرایا۔

اس سلسلے میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں اس معاملے کی تفصیلات معلوم نہیں۔ تاہم پاکستان کے مرکزی ہتھیار فراہم کنندہ کی حیثیت سے چین یقیناً یہ بغور دیکھ رہا ہے کہ اس کا اسلحہ حقیقی جنگی حالات میں کیسا مظاہرہ کرتا ہے۔

چین، جو تیزی سے ابھرتی ہوئی فوجی طاقت بن چکا ہے، گزشتہ چار دہائیوں سے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑا ہے۔ مگر صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے اپنی فوج کو جدید بنانے کےلیے بھاری سرمایہ کاری کی اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل اسلحہ تیار کیا۔

یہ جدت صرف چینی فوج تک محدود نہیں، بلکہ یہ اب پاکستان کے بھی پاس ہے جسے بیجنگ طویل عرصے سے اپنا "آہنی بھائی" قرار دیتا ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں چین نے پاکستان کو اس کے 81 فیصد درآمدی ہتھیار فراہم کیے، جن میں جدید لڑاکا طیارے، میزائل، ریڈار اور فضائی دفاعی نظام شامل ہیں۔ بعض ہتھیاروں کو چین اور پاکستان نے مل کر تیار کیا یا چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستان میں تیار کیا گیا۔

اس حوالے سے ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن لندن کے بین الاقوامی سلامتی کے ڈائریکٹر سجن گوہل نے کہا، "یہ صورتِ حال پاک بھارت تنازع کو چینی دفاعی برآمدات کےلیے ایک عملی تجربہ گاہ بنا دیتی ہے۔"

چینی اور پاکستانی افواج نے حالیہ برسوں میں کئی مشترکہ مشقیں کی ہیں، جن میں فضائی، بحری اور زمینی مشقیں شامل ہیں۔ ان میں لڑائی کے فرضی مناظر، ایک دوسرے کے اہلکاروں کا تبادلہ اور اب مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ہدف شناسی جیسی جدید مہارتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے تجزیہ کار کریگ سنگلٹن کے مطابق، "پاکستان کے پاس چینی ہارڈویئر، تربیت اور اب اے آئی ٹیکنالوجی سے آراستہ نشانہ بازی نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔"

یہ نئی حکمت عملی اس وقت پوری طرح نمایاں ہوئی جب مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے قتلِ عام کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔

دفاعی صف بندیاں اور بڑی طاقتوں کی چپقلش

پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر 1947 کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین نے بھارت کا ساتھ دیا جبکہ امریکا اور چین نے پاکستان کی حمایت کی۔ اب ایک نئی عالمی طاقتوں کی چپقلش نے اس دیرینہ تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

روایتی طور پر غیرجانبداری کی پالیسی پر گامزن بھارت نے گزشتہ دہائی میں امریکا کے ساتھ قربت بڑھائی، امریکا نے بھارت کو چین کے خلاف ایک تزویراتی توازن کے طور پر پیش کیا۔ بھارت نے امریکا، فرانس اور اسرائیل سے جدید اسلحہ خریدنا شروع کیا اور روس پر انحصار کم کیا۔

دوسری جانب پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کیا جو نہ صرف اس کا آہنی بھائی ہے بلکہ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" کا اہم شراکت دار بھی ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، "2000 کی دہائی کے آخر میں پاکستان کو امریکا اور چین سے تقریباً برابر مقدار میں اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا، مگر بعد میں امریکا نے پاکستان کو اسلحہ کی ترسیل کم کر دی، جس کے بعد چین نے اس خلا کو پُر کردیا۔

پاکستان اور بھارت کا حالیہ فضائی معرکہ اور اس کے اثرات

6 اور 7 مئی 2025 کی رات بھارت نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا اور انہیں "دہشتگرد" قرار دینے لگا، ان حملوں میں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی رافیل اور روسی ساختہ ایس یو-30 طیاروں نے حصہ لیا۔

جوابی کارروائی میں پاک فضائیہ نے جے-10 سی طیاروں اور جے ایف 17 تھنڈر کا استعمال کیا اور پانچ بھارتی لڑاکا طیارے، جن میں تین رافیل، ایک میگ-29 اور ایک ایس یو-30 شامل تھے، مار گرائے۔

پاکستانی حکام نے کہا کہ یہ جھڑپ 160 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر لڑی گئی اور اس میں مجموعی طور پر 125 طیارے شامل تھے۔

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی تعلقات کے اسکالر سلمان علی بٹانی کے مطابق، "یہ جھڑپ دو ایٹمی ممالک کے درمیان اب تک کی سب سے شدید فضائی لڑائی سمجھی جا رہی ہے۔"

بھارت اپنے نقصان کے اعتراف سے گریزاں نظر آتا ہے لیکن فرانسیسی وزارتِ دفاع کے ایک ذریعے نے کم از کم ایک جدید ترین رافیل طیارہ پاکستان کے ہاتھوں ضائع ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔

ٹورنٹو میں قائم دفاعی تجزیاتی ادارے کووا گروپ کے بانی بلال خان کے مطابق، "اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ پاکستان کے ہتھیار مغرب کے جدید ترین ہتھیاروں کے ہم پلہ ہیں۔"

چینی سوشل میڈیا پر قوم پرستوں اور دفاعی ماہرین نے جے-10 سی طیاروں کی شاندار کامیابی کو چینی دفاعی صنعت کی فتح قرار دیا۔ اے وی آئی سی چینگڈو کے حصص شینژین اسٹاک ایکسچینج میں بدھ کے روز 17 فیصد اور جمعرات کو مزید 20 فیصد بڑھ گئے۔

جے-10 سی، چین کے سنگل انجن، ملٹی رول طیارے کی جدید ترین قسم ہے، جسے 2000 کی دہائی کے اوائل میں چین کی فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میں بہتر ہتھیار، جدید ایویانکس، اور اے ای ایس اے ریڈار نصب ہیں، اور یہ 4.5 جنریشن کا لڑاکا طیارہ ہے۔

پاکستان کو جے-10 سی ای کی پہلی کھیپ محض تین سال قبل یعنی 2022 میں فراہم کی گئی۔ یہ اب پاکستان کے سب سے جدید لڑاکا طیاروں کا حصہ ہے، جس میں جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری بھی شامل ہے، جو چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

چینی ہتھیاروں کی عالمی مارکیٹ میں مقبولیت

چین کی اعلیٰ تربیت یافتہ دفاعی تجزیہ کار ژو بو کے مطابق، "جے-10 سی طیاروں کا رافیل کو مار گرانا چینی دفاعی برآمدات کےلیے بہت بڑا اعتماد کا مظہر ہوگا، یہ امریکا جیسے ممالک کو بھی چونکا سکتا ہے کہ چین کی طاقت اب کس حد تک پہنچ چکی ہے۔"

اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق امریکا دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کنندہ ہے، جو 2020 سے 2024 کے دوران 43 فیصد اسلحہ برآمد کر چکا ہے۔ چین چوتھے نمبر پر ہے لیکن اس کی برآمدات کا دو تہائی صرف پاکستان کو جاتا ہے۔

بلال خان کے مطابق، "رافیل طیارے گرانے کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے وہ ممالک جنہیں مغرب کا جدید اسلحہ دستیاب نہیں، اب چین کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔"

پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کی تعریف

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے کریگ سنگلٹن نے کہا، "جنگ صرف طیارے خریدنے کا نام نہیں، بلکہ مربوط حکمت عملی، تربیت اور جنگی صلاحیتوں کا امتحان ہوتی ہے۔"

اسی طرح، یونیورسٹی آف اوسلو کے فیبین ہوفمین نے کہا کہ بھارت شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ پاکستان کے پاس PL-15 کی صرف محدود رینج والا برآمدی ورژن موجود ہے، جس کے باعث بھارتی طیارے خطرناک علاقوں میں زیادہ دیر ٹھہرے رہے۔

نتیجہ

حالیہ پاک بھارت فضائی جھڑپ اور اس میں پاکستان کی واضح برتری نے ناصرف جنوبی ایشیا میں عسکری توازن کو ایک نئے دور میں داخل کردیا، بلکہ عالمی سطح پر چینی اور مغربی اسلحے کے درمیان کارکردگی کا پہلا حقیقی موازنہ بھی پیش کردیا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید