• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیت المقدس دنیا کے تین سب سے بڑے مذاہب کے ماننے والوں کا اہم ترین مقدس مقام سمجھا جاتا ہے ،دین اسلام کے ماننے والوں کے لئے اس مقام کو قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے معراج کے سفر کا آغاز اسی مقام سے ہونے سمیت تمام انبیاہ کرام کی امامت کرانے جیسے تاریخی واقعات اور قیامت سے قبل یہاں کی اہمیت کے حوالے سے احادیث اس مقدس جگہ کو مسلمانوں کے لئےمزید اہمیت کا حامل بنادیتی ہیں ،جبکہ یہودیوں اور عیسائیوں کی اس مقدس مقام کے حوالے سے اپنی تعلیمات ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی یہ مقدس مقام مسلمانوں کے زیر حکومت آیا ہے یہاں امن اور انصاف کا بول بالا رہا ہے اور جب بھی یہ مقدس شہر یہودیوں اور عیسائیوں کے زیر تسلط آیا یہاں قتل و غارتگری اور خون ریزی کی داستانیں رقم ہوئیں،حضرت عمر ؓکے دور میں جب اسلامی سلطنت کا پھیلائو شروع ہوا تو بیت القدس کے حاکم اس شرط پر اس شہر کو مسلمانوں کے حوالے کرنے پر رضا مند ہوئے کہ حضرت عمر ؓ خود یہاں آکر معاہدے کے تحت اس شہر کا قبضہ حاصل کریں جس کے بعد وہ خود یہاں پہنچے اور ایک معاہدے کے تحت اس شہر کا قبضہ حاصل کیا اور یہاں امن اور انصاف کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس مملکت پر مسلمانوں کا کنٹرول کئی صدیوں تک قائم رہا ، تاہم گیارہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور 1099ء میں صلیبی کمانڈروں نے مسلمانوں کے فاطمی دور حکومت میں بیت المقدس کا گھیرائو کرلیا ، مسلمانوں کو اس موقع پر پسپا ہونا پڑا اور صلیبی کمانڈروں نے بیت المقدس میںداخل ہوتے ہی خون خرابا شروع کردیا ،صلیبی افواج نے اس قبضے کے دوران اس مقدس سرزمین کو ستر ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگا ،تمام مقدس مقامات کو ڈھا دیا ،یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی رعایت نہیں کی ، عورتوں کی عصمت دری کی گئی ، بچوں اور بوڑھوں کو ناحق قتل کیا گیا ، غرض امن کے اس شہر میں اگلے نوے برس تک ظلم و جبر کا راج قائم رہا ،لیکن پھر نوے برس بعد ایک مسلمان جنرل سلطان صلاح الدین ایوبی نے دو لاکھ افواج کے ساتھ اس مقدس شہر کا محاصرہ کیا اور اپنی افواج کی دہشت سے اس مقدس شہر کے حکمرانوں کو ہتھیارڈالنے پر مجبور کر دیا اور باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی ،صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی فتح کے لئے کوئی بہت بڑی جنگ نہیں لڑی تاہم اس شہر کا دو لاکھ افواج کے ساتھ ایک طویل محاصرہ ضرور کررکھا تھا اور اپنی شاندار فوجی حکمت عملی سے عیسائی حکمرانوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا تھا۔ عیسائی حکمرانوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت بیت المقدس میں مقیم عیسائی شہریوں ، غیر مسلح فوجیوں ، بچوں اور خواتین کو سلامتی کی ضمانت دی گئی تھی ، مورخین کے مطابق معاہدے کے تحت بیت المقدس سے نکلنے والے ہر شخص کو فی کس دس دینا رجیسی معمولی رقم سلطان صلاح الدین ایوبی کی افواج کو ادا کرنا تھی تاہم، ہزاروں غریب عیسائیوں کے لئے اس رقم کا بندوبست بھی صلاح الدین ایوبی نے خود کیا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد انہوں نے شہر کی فتح سے جمع ہونے والی رقم سے تمام مذہبی مقامات سے عیسائیوں کے نشانات کو صاف کیا ، نئی مساجد تعمیر کرائیں ، شہر کی تعمیر نو کی گئی ، غرض تاریخی مقامات کی حفاظت کے ساتھ ایک جدید شہر کی تعمیر بھی کی گئی۔ صدیوں تک یہ شہر مسلمانوں کے زیر قبضہ رہا لیکن پھر ایک عالمی سازش کے ذریعے یہاں اسرائیل جیسے ظالم ملک کا قیام عمل میں لایا گیا ،معصوم اور مظلوم فلسطینی شہری اپنے ہی ملک میں اجنبی قرار دے دیئے گئے۔ ستاون کے لگ بھگ اسلامی ممالک دنیا کی ایک تہائی دولت کے مالک ہونے ،ایٹم بم سے لے کر دنیا کے جدید ترین ہتھیار رکھنے کے باوجود ،بائیس ہزار اسکوائر کلومیٹر پر محیط ایک چھوٹے سے ملک جس کی آبادی صرف بانوے لاکھ افراد پر مشتمل ہے، کے ظلم و ستم سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو بچانے سے قاصر ہیں۔ فلسطین کے بچے ،نوجوان اور خواتین پتھروں اور غلیلوں سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرتے ہیں ، حماس جیسی مزاحمتی تنظیم کے ارکان اپنے چھوٹے چھوٹے راکٹوں سے اسرائیل جیسی دنیا کی خطرناک ترین افواج پر حملہ آور ہوتے ہیں جس سے گنتی کے چند اسرائیلی فوجی زخمی ہوجاتے ہیں ،اس حملے کے بعد حماس کے یہ حریت پسند شہری علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اسرائیلی افواج خطرناک میزائلوں سے حماس کے ان جانبازوں کو ان شہری علاقوں میں نشانہ بناتی ہے جس سے فلسطینی بچے ، خواتین اور نوجوان شہید ہوتے ہیں ،اور پھر دنیا میں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے ،اسلامی دنیا کو ایک مسیحا کی تلاش ہے جو ان اسرائیلی مظالم سے فلسطینی بچوں اور خواتین کو نجات دلائے ، کیا اسلامی دنیا میںکوئی ایسا ہے ؟

تازہ ترین