• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیارت کا شمار پاکستان کے چند ایک بہترین صحت افزاء مقامات میں ہوتا ہے اور یہاں کے صنوبر کے جنگلات کا شمار دنیا کے دوسرے بڑے اور قدیمی جنگلات میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے کونے کونے سے سیاح یہاں سیر کو آتے ہیں۔ سیاحوں کی دلچسپی کے لئے یہاں کافی چیزیں موجود ہیں۔سخت گرمیوں میں یہاں کا بہترین موسم، صنوبر کے گھنے جنگلات، قدرتی پانی کے ٹھنڈے میٹھے چشمے، نیلے پانی کی خوبصورت جھیلیں اور سیب ، خوبانی اور دوسرے پھلوں کے دلکش باغات ۔یہاں پر آنے والے سیاح خرواری بابا کی زیارت، درختوں میں گھری ہوئی خوبصورت زِزری وادی، خوبصورت درختوں کے بیچ گھری نیلے پانی کی ماناوادی اور قدرتی چشموں کی خوبصورتی کے ساتھ سنڈے مین تنگی کا نظارہ ضرور کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی کشش اپنی جگہ مگر خیال یہ ہے کہ یہاں آنے والا ہر سیاح شاید سب سے پہلے محسن قوم کی یادگار پر حاضری ضروری سمجھتا ہو گا۔کچھ دنوں سے تحریر کنندہ کو ایک دہائی قبل کے زیارت کا سفر بہت یاد آیا ہے۔فورٹ منرو کے پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی خطرناک سڑک سے ہوتے ہوئے لورا لائی اور پھر کچھ گھنٹوں بعد زیارت۔ سفر اگرچہ کافی لمبا اور تھکا دینے والا مگر شوقِ زیارت کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ رات کو نیند پوری کرکے صبح صبح زیارت کی سیر۔ ہر ہم سفر کی اپنی رائے کہ پہلے یہاں چلا جائے مگر پہلی منزل محسن قوم کی یادگار ہی ٹھہری۔1892ء میں خوبصورت طرز تعمیر پر بنی ہوئی یہ عمارت شہر کی نسبت تھوڑا اونچائی پر بنائی گئی۔ پہلے عمارت کے اندرونی حصہ کی سیر کی گئی پھر کچھ دیر کے لئے عمارت کی داخلی سیڑھیوں پر بیٹھنا ٹھہرا۔ خوبصورت لان اور آس پاس چنار اور صنوبر کے خوبصورت درخت۔ موسم بھی ابر آلود اور شہر کی آلودگی سے پاک فضا اور خاموشی بھی۔ لگا کہ پچھلے دن کے سفرکی تھکاوٹ کا صلہ مل گیا ہے۔ کچھ دیر کے لئے تو فطرت کی اس خوبصورتی پر گم سے ہو گئے مگر یکایک آنکھوں کے سامنے منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔قائد اعظم بہت کمزور ہو چکے ہیں اور بخار اور کھانسی کے دورے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے وزن بھی کافی حد تک کم ہو چکا ہے۔ فاطمہ جناح اپنے بھائی کی صحت کے لئے کافی فکر مندہے۔ مشہورفزیشن کرنل الہٰی بخش کو زیارت بلایا جاتا ہے۔ معالج مریض کاضروری معائنہ کرتاہے اور ضروری ٹیسٹ کراتا ہے۔ٹیسٹوں کے نتائج تسلی بخش نہیں آتے۔ قائد کو اس کے بارے میں بتادیا جاتا ہے اورفاطمہ جناح کوبھی حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔معالج بتاتا ہے کہ یہ مرض شاید پچھلے دو سال سے لاحق ہو سکتی ہے۔ قائد کہتے ہیں کہ میں پچھلے چودہ سال سے مسلسل چودہ گھنٹے کام کر رہا ہوں۔ میڈیکل چیک اپ اور آرام کا موقع ہی نہیں ملا۔ حالانکہ طبیعت میں تبدیلی پچھلے چند ایک سال سے ضرور محسوس کر رہا تھا۔ اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے قائد اپنے معالج سے پوچھتے ہیں کہ مزید کتنا عرصہ بستر پر رہوں گا؟ کیونکہ میری بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ نوزائیدہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داریاں۔ اس بات پر معالج شاید سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ مریض کو اپنی صحت کی فکر کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ معالج سرکاری امور نمٹانے سے منع کرتا ہے مگر قائد پھر بھی ضروری سرکاری فائلوں کو اس حالت میں بھی نمٹاتے ہیں۔ فاطمہ جناح رات دن اکیلے تیمارداری کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو معالج مشورہ دیتا ہے کہ کوئٹہ سے ایک نرس اس کام کے لئے بلائی جائے مگر مریض کہتے ہیں کہ کوئی ضرورت نہیں یہ پیسے کا ضیاع ہے۔بہت اصرار پر پھر اجازت دے دیتے ہیں۔خیالات کا سلسلہ تھوڑا ٹوٹتا ہے تو ہم اور ہم سفر چہل قدمی کے لئے قریب لگے چنار اور صنوبر کے درختوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ صنوبر کے درختوں کے بیچوں بیچ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے طبیعت میں ایک عجیب سی سر مستی پیدا کردیتے ہیں۔اچانک خیالات کا سلسلہ پھر وہاں سے جڑ جاتا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ریذیڈنسی کے ہمسائے صنوبر بھی تو 1948ئکی گرمیوں کے دنوں کے مہمان کے حالات کے امین ہیں۔ انہوں نے بھی ضرور معالج اور قائد کے بیچ ہونے والی گفتگو کے جملے ضرور سنے ہوں گے۔ اس لان میں چہل قدمی کے دوران انہوں نے ایک عجیب شخص کو اپنی صحت کی فکر کے بجائے قوم کی فکر کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہو گا اور شاید انہوں نے سینہ بہ سینہ یہ تمام معلومات اپنے جیسے صنوبر کے دوستوں کو پورے علاقے میں ضرور پہنچائی ہوں گی۔ ہم سفر ناراض ہونے لگتے ہیں کہ اتنا وقت ہو چلا اور ابھی تک ہم نے صرف ریذیڈنسی ہی دیکھی ہے۔کہیں اور چلا جائے۔ صنوبرکے جنگلات میں ہائیکینگ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ پگڈنڈیوں کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے کہیں دور نکل جاتے ہیں۔ کافی دیر بعد تھوڑا سستانے کے لئے ایک بوڑھے اور لاغر صنوبر کے نیچے رکتے ہیں۔ تمام سیاحوں کی توجہ اس بوڑھے صنوبر کے تنا پر لگے ایک تعارفی کتبے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ تما م اٹھ کر باری باری اس کتبے کو پڑھتے ہیں۔ کتبے کی تحریر بڑی دلچسپ ہے۔ شایدیہ کتبہ محکمہ جنگلات والوں نے لگایا ہو یا ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی کسی این جی او نے۔ کتبہ انگریزی میں لکھا ہے، اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے۔”میری عمر 4500سال ہے۔ میرا تعلق زیارت کے صنوبر جنگلات سے ہے۔ میں ایک سال میں5ملی میٹر بڑھتا ہوں۔ میرے دوست ایک ایک کر کے مر رہے ہیں۔ لوگو کیا تم مجھے مرنے سے بچا سکتے ہو!!"
فاریسٹ مینجمنٹ کے اصولوں کے مطابق تمام بوڑھے، لاغر ، کمزور اور بیمار درختوں کو نکال کے وہاں نئے پودے لگائے جاتے ہیں تاکہ جنگلات کی لکڑی کافائدہ بھی اٹھایا جا سکے اور جنگل بھی برقرار رہے اور یہ سارا عمل ایک لمبے اور مخصوص طریقہ کار سے گردش کرتا ہے ۔ شاید کچھ عمر رسیدہ درختوں کو تاریخی ورثے کے طور پر بھی چھوڑ دیا جاتا ہو۔ جیسا کہ یہ بوڑھا صنوبر یا پھر ہمارے جیسے ملک میں فاریسٹ مینجمنٹ کا مناسب نظام ہی نہ ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر یہ بات حتمی تھی کے یہ درخت اپنے اندر پچھلے ساڑھے چار ہزار سال کی انسانی تاریخ کا مکمل انسائیکلوپیڈیا ہو گا اور 1948ء کے گرما میں یہاں آنے والے مہمان کے بارے میں بھی اپنے دوسرے دوستوں سے سینہ بہ سینہ ملنے والی اطلاعات کا امین بھی۔ قائد کے شب و روز، ان کی مصروفیات، بیماری اور کمزوری کے باوجود کام کرنے کی باتیں اس بوڑھے صنوبر تک ضرور پہنچی ہوں گی۔ تھوڑا سستانے کے بعد ہم سفروں کے اصرار پر واپسی کا راستہ لیا کیونکہ ابھی کافی اور جگہیں بھی دیکھنی تھیں اور صبح واپسی کا پروگرام بھی تھا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے دوبارہ زیارت جانے کی تمنا کافی شدت سے موجود تھی مگر نوکری پیشہ آدمی کے پاس ایسی ”عیاشی“ کے لئے وقت کہاں؟ہر موسم گرما میں پروگرام بنتا رہا مگر مصروفیات کی وجہ سے عملدرآمد نہ ہو سکا مگر زیارت جانے کا جب بھی پروگرام بنا تو سوچا اس بوڑھے صنوبر اور اس کے تنے پر لگے ہوئے تعارفی کتبے کو دوبارہ ضرور دیکھنا ہے مگر پچھلے ایک ہفتہ سے یہ تمنا بھی کچھ متزلزل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے شایدکچھ وہم اور کچھ خدشات کی وجہ سے۔ شاید سب سے بڑا خدشہ اور خوف اس بوڑھے صنوبر کے پاس جانے کا ہے۔ بوڑھا صنوبر تو شاید موجود ہی ہو گا۔ خدشہ یہ کہ کہیں اس نے اپنے تنے پر لگائے ہوئے تعارفی کتبے کی عبارت تبدیل نہ کر لی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں اُس نے عبارت کے الفاظ یہ نہ لکھ دیئے ہوں۔
”میری عمر4500برس ہے۔ میرا تعلق زیارت کے صنوبر جنگلات سے ہے۔افسوس میں ساڑھے چار ہزار سال سے یہ دن دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔ اب جینے کا کوئی شوق نہیں لہذا مجھے مرنے سے بچانے کی کوئی ضرورت نہیں“۔
تازہ ترین