فاروق قیصر کے انتقال نے سب کو رنجیدہ کردیا۔ وہ پتلیوں کے بادشاہ تھے، پُتلی کے کردار تخلیق کرتے تھے اور ان سے بہت لطیف مزاحیہ انداز میں اصلاح معاشرہ کا کام لیتے تھے۔ سماجی مسائل کو اجاگر کرتے تھے اور لوگوں میں شعور و آگہی بیدار کرتے تھے۔ انَکل سرگرم، ماسی مصیبتے، رولا اور شرمیلی کے علاوہ ہیگا ان کے مقبول پتلی کردار تھے۔ ان کرداروں میں سب سے زیادہ شہرت ’’انکل سرگم‘‘ اور ماسی مصیبتے کو ملی۔ ’’انکل سرگم‘‘ کی آواز خود فاروق قیصر کی ہوتی تھی، جب کہ دوسروں کرداروں کے لیے مختلف فن کاروں کی ایک پوری ٹیم تھی۔
شرمیلی اپنے نام کی طرح شرمیلی اور آواز بھی پتلی باریک شرمیلی سی۔ شرمیلی کے کردار کے لیے فاروق قیصر کو بشریٰ انصاری کی آواز مناسب لگی اور شرمیلی خوب مزے مزے سے باتیں کرتی تھیں، اپنی مخصوص آواز میں گانے بھی گاتی۔ یہ فاروق قیصر کے کرداروں کی انفرادیت تھی کہ وہ شاعری بھی کرتے، بحث و مباحثہ بھی کرتے، گانے گاتے، رقص کرتے، لوگوں کا دل بہلاتے اور حقیقت میں کوئی عام زندگی کے کردار لگتے۔
جب ٹیلی ویژن پر ’’کلیاں‘‘ شروع ہوا تو یہ بچوں کا پروگرا تھا۔ اس زمانے میں ٹی وی پر بچوں کے لیے خصوصی ڈرامے، شوز اور پروگرام پیش کیے جاتے تھے۔ کلیاں تھا تو بچوں کے لیے ’’پُتلی تماشا‘‘ لیکن اس سے بڑے بھی محضوظ ہوتے۔ ’’ہائے میرے مولا، کتھے پئے گیا رولا‘‘، انکل سرگم جب بھی رولے سے مخاطب ہوتے، پہلے یہ لائن کہتے۔ پھر جب ہیگا کی باری آتی تو، ہیگا کہتا کہ ’’ہیکا ہیگا بالکل موجود ہیگا‘‘۔
کلیاں کا ایک ایک کردار بچوں اور بڑوں سب کا پسندیدہ تھا۔ انکل سرگم کا کردار سُنا ہے کہ فاروق قیصر نے اپنے ایک استاد کی یاد میں تخلیق کیا تھا۔ کلیاں سے پہلے فاروق قیصر، سلیمہ ہاشمی اور شعیب ہاشمی کے ساتھ اکڑبکڑ کیا کرتے تھے۔ اکڑبکڑ ایک مشہور امریکی بچوں کا شو سے متاثر ہوکر پیش کیا گیا تھا۔ یہ70 کا زمانہ تھا، ٹیلی ویژن بلیک اینڈ وائٹ ہوتا تھا۔ اکڑبکڑ کے بعد فاروق قیصر نے اپنا پروگرام کلیاں شروع کیا۔ اپنی ایک پوری ٹیم بنائی، یادگار کردار پتلی کی شکل میں تخلیق کیے اور سب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔
کلیاں سالہا سال چلتا رہا۔ سابق صدر مرحوم ضیاالحق کو ’’کلیاں‘‘ بہت پسند تھا۔ عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی کلیاں ایسا بھایا کہ یہ شو بلاتعطل نشر ہوتا رہا اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا رہا۔ کلیاں کے وقت پاکستان ٹیلی ویژن رنگین نشریات شروع کرچکا تھا۔ کلیاں کو پی ٹی وی کے آغاز سے لے کر آج تک بچوں کا سب سے مقبول پروگرام مانا جاتا ہے۔ اگرچہ ٹک ٹک کمپنی، بہادر علی، عینک والا جن بھی بہت مشہور ہوئے، مگر پسندیدگی کے اعتبار سے کلیاں سرفہرست رہا۔
فاروق قیصر شاعر تھے، گیت نگار تھے، کالم نگار تھے، مگر ان کی شناخت کا سب سے مضبوط حوالہ کلیاں بنا۔ کلیاں میں پیش کیے جانے والے گیت وہ خود تحریر کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی مایہ ناز پاپ سنگر نازیہ حسن نے کئی بار کلیاں میں شرکت کی اور پتلیوں سے بات چیت بھی کی، گانے بھی گائے۔ اسی طرح جنید جمشید بھی بہ طور مہمان کلیاں میں شریک ہوئے۔ نازیہ حسن کا ذکر ہوا ہے تو ہم یہ بتادیں کہ ان کا گایا ہوا مقبول گیت ’کومل کومل‘ فاروق قیصر کا لکھا ہوا ہے۔ ’کومل کومل پلکیں بوجھل‘ یہ گیت جتنی محنت سے لکھا گیا اتنی ہی خوب صورتی سے گایا گیا تھا۔
سرگرم ٹائم میں ایک Mascot تھا، انکل سرگم کا۔ فاروق قیصر سیٹ پہ ایک کونے میں بیٹھ کے آواز نکالتے تھے، جب کہ سرگم کا Mascot ایک دوسرا فن کار بنا تھا۔ انکل سرگم کے ساتھ ہم نے بہت سے شوز کیے۔ ریکارڈنگ کے دوران پروڈیوسر قیصر فاروق ہمارے لیے لنچ باہر سے منگواتے تھے، جب کہ فاروق قیصر کہتے تھے میں ٹیم کے ساتھ کینٹین میں کھائوں گا۔ فاروق قیصر اور ان کی ٹیم کے ساتھ سرگم ٹائم کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ اس کے بعد ہم نے ایک تیرہ پروگراموں کی سیریز کی، یہ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق پروگرام تھا، جس کے لیے ہم پاکستان کے مختلف شہروں میں گئے۔
ہم میزبان تھے اور ہمارے ساتھ ہر شو میں مقامی ڈاکٹرز، مشہور سماجی شخصیت اور انکل سرگم ہوتے تھے۔ یہاں انکل سرگم کا Mascot بابر نامی فن کار بنا تھا اور فاروق قیصر اسٹیج کے پیچھے کونے میں بیٹھ کے وائس اوور Voice Over کرتے۔ انکل سرگم اپنے روایتی مزاحیہ انداز میں خواتین کو سمجھاتے تھے، ان میں شعور بیدار کرتے تھے۔ لوگوں پر اس کا بہت اثر پڑتا تھا۔ فاروق قیصر کی آواز میں بھی تاثیر تھی اور قلم میں بھی۔ بڑی سے بڑی کاٹ دار بات خوب صورت انداز میں انکل سرگم کے کردار کے ذریعے کہلوا دیتے۔ ان کے کردار شاعری بھی کرتے تھے۔ مثلاً فاروق قیصر کا کردار رولا کی شاعری ملاحظہ ہو۔ ’’میرے دفتر کا ایک افسر مجھے ستاتا ہے۔
نہ کھانے دیتا ہے مجھ کو نہ خود وہ کھاتا ہے‘‘۔ اپنے کرداروں کے ذریعے معاشرے کے مسائل وہ بہترین انداز میں پیش کرتے تھے۔ اتنے قابل انسان، اتنے پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، افسوس کہ چل بسے۔ ان کے جانے سے طنزومزاح اور شگفتگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ کمال احمد رضوی، لہری، اطہر شاہ خان تو پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے ، اب فاروق قیصر بھی بچھڑ گئے۔ ان کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے اعزازات بھی دیے گئے۔ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے باہر ایک پارک میں ان کے کردار انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے مجسمے بھی آویزاں ہوئے۔
فیس بک پر اُن کی مداحوں کی تعداد ہو یا اخبار پڑھنے والے ان کے فین، ان کے کارٹون دیکھنے والے پرستار ہوں یا ٹیلی ویژن پر ان کے پروگراموں کے دیوانے سبھی فاروق قیصر کے چلے جانے سے سوگوار ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ان کا آخری کارٹون جو اخبار میں شائع ہوا، وہ کچھ اس طرح سے تھا کہ جیل سے رہائی پانے والا ایک قیدی جیلر سے درخواست کررہا ہے کہ اس کی جو سزا معاف ہوئی ہے، اسے کینسل کردیں، وہ جیل سے باہر نہیں جانا چاہتا کہ باہر بڑی مہنگائی ہے۔