• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک خبر میڈیا کی زینت بنی جس میں بتایا گیا کہ میو اسپتال لاہور میں سیکورٹی گارڈ نے ایک مریضہ کی سرجری کردی جس کی وجہ سے اس کی حالت نازک ہوگئی۔شاہد خاقان عباسی نے اس خبر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس مملکت خداداد میں سیکورٹی گارڈ زسات دہائیوں سے سرجری کرنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ جب مریض کا آپریشن سرجن کی بجائے موچی یا نائی کرے گا تو مریض کی حالت دگرگوں ہی ہوگی۔دراصل پاکستان کی 74سالہ تنزلی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں جس کا جو کام ہے وہ نہیں کر رہا۔اس صورتحال کی اصل وجہ دراصل پاکستانی معاشرے میں ادارہ سازی کا فقدان ہے۔

یورپین تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ریاست ،سیاسی اور جمہوری عمل کی بدولت آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہو کر عوام کے فلاح و بہبود کی امین بنی۔ جمہوری نظام نے بادشاہوں اور شخصی حکومتوں کو ختم کر کے عوامی حکومتیں قائم کیں جس سے معاشرے میں ریاست اور عوام کے درمیان گہرے رشتے پروان چڑھے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں نوآبادیاتی حکمرانوں نے جاگیرداروں،پیروں،سجادہ نشینوںاور قبائلی سرداروں کو حکومت میں شامل کر کے ریاستی سرپرستی کا نظام قائم کیا جس نے سفارشی کلچر کو پروان چڑھایا اور یوں آزادی کے بعدبھی جمہوری ادارہ سازی پروان نہ چڑھ سکی اور ریاست اور عوام کے رشتے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے نے ادارہ سازی کی راہیں ہموار کرنے کی بجائے سماج میں ہیروازم کی ضرورت کو پیدا کیا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ عظیم شخصیتیں ہی ان کے دکھ درد کا مداوا کر سکتی ہیں یوں بجائے مزاحمت کرنے کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے شخصیات کی آمد کا انتظار کرنے لگے اور دوسری طرف حکمران طبقوں نے ان شخصیات کے افکار کو اپنی حکمرانی کے تسلط کیلئے استعمال کیا۔حکمران طبقے قائداعظم، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے افکار کو اپنی ضروریات کے مطابق عوام کے سامنے پیش کرتے رہے یوں نئے نظریات کو روکنے کی شعوری کوشش کی گئی، یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی طرح جاری و ساری ہے۔افکار و نظریات خاص تاریخی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور معاشرے کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر مرحلے اور ہر اسٹیج پر نئے نظریات پیدا کیے جائیں جو زمان و مکان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوں۔پاکستان میں ادارہ سازی کا خواب اس وقت تک خواب ہی رہے گا جب تک جمہوری روایتیں مستحکم نہیں ہوجاتیںاور سیاسی پارٹیاںبھی شخصیات کی گرفت سے باہر نہیں نکل جاتیں کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ شخصیات اصولوں سے بڑی ہوجاتی ہیںاور یوں جمہوری ادارے اپنی روایتیں نہیں بنا پاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ادارہ سازی نہ ہونے کی بڑی وجہ پاکستان کی سیاست میں سیکورٹی اداروں کی بار بار مداخلت بھی ہے جس کی وجہ سے جمہوری سیاست اور جمہوری عمل اپنے پائوں سماج میں کبھی نہ جما سکا ۔ ایوب خان فوجی طاقت کے ذریعے آئے اور جو تھوڑی بہت جمہوری روایتیں پروان چڑھ رہی تھیں ان کا بھی قلع قمع کردیا۔یحییٰ خان نے فوجی حکومت کو تازہ خون دینے کی کوشش کی مگر اس طرح مشرقی پاکستان کا المیہ پیش آیا۔ضیاالحق نے کلاشنکوف، ڈرگ،فرقہ وارانہ تعصب ،لسانی و نسلی فسادات، اظہاررائے پر پابندی اور ریاستی مشینری و میڈیا کے ذریعے سماج کو تنزل پذیری کی آخری حد پر پہنچا دیا۔ایک ایسا نظام تعلیم رائج کیاجس نے متشدد اور تنگ نظر نسل کو جنم دیا ،لوگوں کو سیاست سے دور کرکے سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور ضرورت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور آئین کو پس پشت ڈال دیا ،یوں ادارہ سازی کی جدوجہد ماند پڑ گئی۔مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق ، پیٹریاٹ اور نیب کے ذریعے سیاسی عمل کو شدید دھچکا پہنچایاگیا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ عوام سیاسی عمل سے بالآخر تھک ہار کر مایوس ہوجائیں۔ان تمام نامساعد حالات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے پاکستان کو 73ء کا آئین دیا،اٹھارہویں ترمیم دی،این ایف سی ایوارڈ دیا اور فاٹا کے اضلاع کو خیبر پختون خوا میں ضم کیاجو کہ ادارہ سازی کی طرف اہم تاریخی اقدامات تھے۔

آج اکیسویں صدی میں جن سماجوں میں ادارے مستحکم ہو چکے ہیں وہ ملک چاہے کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں وہاں عام آدمی ریاستی ادارہ سازی کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے کیونکہ وہاں قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے اور آئین کی پاسداری ہر خاص و عام کے لئے لازمی امر ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج پاکستانی اشرافیہ ہر طریقے سے اپنی دولت کما کر یورپ اور امریکا میں اپنی بقیہ زندگی پرامن طریقے سے گزارنے کی خواہاں کیوں ہے؟ کیونکہ ان ممالک میں ریاستیں ماں کی طرح ہیں جو کہ اپنے عوام کو اپنے بچوں کی طرح پالتی ہیں اور اپنے امیر بچوں کو ہر وقت تلقین کرتی رہتی ہیں کہ اپنے غریب بھائی بہنوں کی سرپرستی کریں۔

پاکستان میں آئین کی پاسداری کی منزل ایک صبر آزما جدوجہد کی متقاضی ہے اس لئےپی ڈی ایم کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے کہ ہر صورت عوام کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے، پیپلز پارٹی کو حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروائے اور دوبارہ سے پی ڈی ایم کا حصہ بنائے ،حالانکہ پیپلز پارٹی نے اپنے عزائم واضح کردیے ہیں لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس پارٹی کی ایک لمبی سیاسی قربانیوں کی تاریخ ہے۔ یاد رہے کہ تیسری دنیا کے تنزل پزیر معاشرے میں سیاست ایک مفاہمت کا نام ہے اور حکمرانوں کے مقابلے میں پی ڈی ایم کو زیادہ میچور اور دورس فیصلے کرنے ہوںگے کیونکہ سویلین سپرمیسی اور آئینی بالادستی کے حصول کے بغیر پاکستان میں ادارہ سازی کبھی فروغ نہیں پا سکتی اور نہ ہی عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین