• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری نثار علی خان کی سیاست میں دبنگ انٹری، جہانگیر ترین گروپ کی دن رات بدلتی حکمت عملی، بزدار حکومت کے مستقبل، پنجاب سے جنم لینے والے سیاسی بحران سے اسلام آباد کے ایوانوں میں آنے والے بھونچال کے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی پر پڑنے والے اثرات اور دونوں بڑی جماعتوں میں اقتدار کی کشمکش سے جڑے خانِ اعظم کے مفادات پر بات کرنے سے پہلے مہنگائی بازار سے تازہ ترین دلچسپ مگر انتہائی پریشان کن خبر یہ آئی ہے کہ ننھے منے بچوں کے پیمپرز بھی سو فیصد مہنگے ہونے پر والدین نے اپنے مستقبل کو غلاظت سے پاک رکھنے کی خاطر انہیں لنگوٹ باندھنا شروع کر دیے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ یہ معاشرہ کس طرح پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ رہا ہے ۔ ایک طرف امرا نے غریبوں کو لوٹنے کے لئے لنگر لنگوٹ کس لئے ہیں تو دوسری طرف ہمارے جسموں سے نت نئے انداز سے لنگوٹ بھی کھینچنے جارہے ہیں۔ ابھی چینی، آٹا، ادویات مافیا کا سیاپا ختم نہیں ہوا تھا کہ راولپنڈی رنگ روڈ کا اسکینڈل سامنے آگیا جس میں بڑے بڑوں کے نام سامنے آرہے ہیں۔ یہ وہی کردار ہیں جنہیں عرفِ عام میں اے ٹی ایم مشینیں کہا جاتا ہے غالباً یہ اے ٹی ایم مشینوں کی آخری لاٹ ہے جو اپنی واردات سے 2018کے ہائبرڈ نظام پر ہونے والی سرمایہ کاری کا منافع اینٹھ رہی ہے۔ یہ کیسا تماشا چل رہا ہے کہ ایک طرف مہنگائی کا اژدھا منہ کھولے بیٹھا ہے تو دوسری طرف ظاہر پیر کے رہائشی ایک غریب کسان جام زبیر احمد نے اپنی ٹماٹر کی تمام فصل نہر میں محض اس لئے پھینک دی کہ وہ بےچارہ سبزی منڈی میں پانچ گھنٹے تک گاہک کا منتظر رہا لیکن کسی نے چند ٹکوں کے عوض بھی اس کے ٹماٹر نہیں خریدے تو مجبوراً اسے یہ تمام ٹماٹر نہر میں پھینکنا پڑے۔ یہ افسوس ناک منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے زبیر کی دو ننھی منی بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنے باپ کی بےبسی کو دیکھ رہے تھے، یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ صاحبانِ اقتدار واختیار اونچی اڑانوں میں ہیں اور انہیں نیچے کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ کی ایک مخلوق روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہی ہے اور یہاں انصاف کی آڑ میں دن دہاڑے کھربوں کے ڈاکے مارے جارہے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ گویا کہ 2018میں جنم لینے والا یہ ہائبرڈ نظام حکومت اب اپنے بریڈر کٹوں، بچھڑوں، بکریوں، مرغیوں کے انڈوں سمیت ہمیں پوری طرح نگل رہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ صرف ایک قومی ادارے پاکستان ریلوے کی کارکردگی سے لگا لیں کہ موجودہ دور حکومت کے پہلے پونے تین سال میں ریلوے کو مجموعی طور پر ایک کھرب 19ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ 2018-19میں یہ خسارہ 32ارب 76کروڑ تھا جبکہ دو سال میں ٹرینوں کی تعداد 120سے کم ہو کر 84رہ گئی۔ اس تصویر کشی کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ حقائق کی ایک جھلک سب کے سامنے رہے اور اس ہائبرڈ نظام کے تخلیقی نقائص کے پس منظر میں یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے کہ گزشتہ ایک سال سے سیاست کے میدان میں جو ہلکی ہلکی ڈھولکی بج رہی تھی اب اچانک ایسی کیا فکر مندی لاحق ہو گئی ہے کہ بینڈ باجے کے ساتھ پوری بارات ہی خانِ اعظم کے دروازے پر آکھڑی ہوئی ہے۔ پہلے جہانگیر ترین گروپ متحرک ہوا پھر حمزہ شہباز اور شہباز شریف جیل سے باہر آئے اب تقریباً تین سال کی طویل خاموشی کے بعد چوہدری نثار علی خان پنجاب اسمبلی میں انٹری چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ انہونیاں کچھ ہونے کی نشانیاں ظاہر کرتی ہیں اور اس میں بنیادی سوچ یہی نظر آتی ہے کہ جمود کے شکار اس ہائبرڈ نظام کو دوبارہ روایتی نظام کی طرف کیسے منتقل کیا جائے؟ جس سے یہ تاثر ختم ہو سکے کہ تخلیق کار نے جو شاہکار تخلیق کیا تھا وہ اس سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں لیکن یہ کام اتنا بھی آسان نہیں کہ پلک جھپکنے میں اس شاہکار پر برش پھیر کر ساری محنت ضائع کر دی جائے۔ کینوس پر سب سے اہم مرحلہ ”ع ع“ کا روحانی گٹھ جوڑ ہے جسے ”ع غ“ کرنا کہیں زیر غور تو ضرور ہے لیکن ”ع ع“ اتنے دھاگوں میں لپٹے ہیں کہ یہ الجھی ڈور سلجھانا اس لئے بھی آسان نہیں کہ جہانگیر ترین گروپ پنجاب میں ن لیگ کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتا جبکہ بڑے میاں صاحب کسی بھی صورت وقتی طور پر موجودہ نظام کو سہارا دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے میں چوہدری نثار علی خان کی پنجاب اسمبلی میں انٹری اسی سبب نظر آتی ہے کہ اگر چھوٹے میاں اپنے بڑے بھائی کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مریم بی بی کا سیاست میں کردار ان کے بعد رکھا جائے تو بوقت ضرورت چوہدری نثار علی خان ن لیگ، جہانگیر ترین گروپ کے مشترکہ امیدوار کے طور پر پنجاب کی عین کو غین کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ایسے مرحلے میں جہانگیر ترین، علی ترین پر منی لانڈرنگ کیس کی لٹکتی تلوار خانِ اعظم کی اصل ڈھال بنے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرکار بیرسٹر علی ظفر کی رپورٹ منظر عام پر لانے میں تاخیر کررہی ہے خصوصاً وفاقی و پنجاب بجٹ کی منظور ی تک اس رپورٹ کے حقائق سامنے آنے کے امکانات کہیں نظر نہیں آتے۔ تخلیق کاروں کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ پنجاب کی ”ع“ کو ہٹاتے ہیں تو وفاق کی ”ع“ نئی پنجاب حکومت کو چلنے نہیں دے گی۔ ایسے میں وفاق کی ”ع“ ہٹاتے ہیں تو وہاں ”ن“ کی راہ میں ”پ“ حائل نظر آتی ہے کیونکہ بلاول بھٹو ممکنہ طور پر تخلیق کاروں کے امیدوار ہو سکتے ہیں جو کسی بھی صورت (ن) کو قبول نہیں۔ ع کو غ کرنے کے کھیل میں ن کہیں نظر نہیں آتی۔ ع کی اصل طاقت ن ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خانِ اعظم دھمکی بھی دیتے ہیں اور تھپکی بھی۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں۔ ع غ کا یہ کھیل یوںہی جاری رہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین