• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کوئی 45برس پہلے کا ذکر ہے کہ نیوز ایجنسی پی پی آئی کے مالک جناب معظم علی پاکستان سے لندن منتقل ہوئے اور ایک دینی مزاج کے سعودی شہزادے کے ساتھ مل کر اسلامی بینک قائم کرنے پر کام کر رہے تھے۔ میں جب کبھی لندن جاتا، تو اُن سے ضرور ملتا کہ ہمارے خیالات ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ میں اُن سے پوچھتا رہتا کہ انگلستان کا بینکنگ سسٹم کیسا ہے اور شرح سود کتنی ہے؟ اُنہوں نے ایک روز انکشاف کیا کہ جب سے برطانوی بینکوں کے ہائی ایس کو اسلامی بینک کے قیام کی بھنک پڑی ہے، اُنہوں نے شرح سود میں حیرت انگیز طور پر کمی کر دی ہے اور بعض بینک اب صرف ایک فی صد شرح سود پر قرض دے رہے ہیں۔ اِس اقدام سے برطانوی معیشت میں اُبھار پیدا ہوا ہے اور پیداواری سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں اور یہی رجحان یورپی ممالک میں بڑھتا جا رہا ہے، کیونکہ معاشی ماہرین اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شرح سود جس قدر کم ہو گی، اُسی نسبت سے معیشت میں استحکام پیدا ہو گا۔ غربت میں کمی آئے گی، روزگار کے مواقع فزوں تر ہوں گے اور پیداواری عمل میں وسعت اور گرمجوشی ظہور پذیر ہو گی۔

میری طبیعت اعدادوشمار سے گھبراتی ہے، اِس لئے میں اقتصادی گورکھ دھندوں میں دلچسپی نہیں لے سکا، البتہ مجھے یہ حقیقت پریشان کرتی رہی ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کے سوا ہمیں کوئی معاشی دماغ اور وزیرِخزانہ میسر نہیں آیا۔ زیادہ تر اکاؤنٹنٹ اور بینکار وزارتِ خزانہ کے منصب پر فائز رہے اور ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آئے اور آج معیشت کی زبوں حالی کا معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ ہمارے وزیرِاعظم جن کا شوقِ خطابت اُن کی توانا صلاحیتیں چاٹتا آ رہا ہے اور اُنہیں بڑبولوں کا محتاج بنا دیا ہے، وہ غالباً معیشت کی ابجد سے واقف نہیں اور اِسی لئے اُنہوں نے اپنی ڈھائی سالہ حکمرانی میں ایسےایسے فیصلے صادر کیے کہ عقلِ سلیم تواتر سے اپنا سر پیٹتی آ رہی ہے۔ اقتدار میں آتے ہی شرح سود 13.25 فی صد مقرر کر دی جبکہ معیشت پر جاںکنی کا عالم طاری تھا۔ صحافیوں کے ساتھ ملاقات ہوئی، تو منجھے ہوئے صحافی اور بےباک ٹی وی اینکر محمد مالک وزیرِاعظم کے سامنے پھٹ پڑے کہ آپ معیشت کا بیڑہ غرق کرنے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں اور اِتنی اونچی شرح سود قائم رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں جس میں ہماری اقتصادی زندگی ویران ہو کے رہ جائے گی۔ پورے ملک میں بڑھتے ہوئے احتجاج کے نتیجے میں شرح سود میں چار فی صد کی کمی کی گئی، مگر گہرا زخم لگ چکا تھا۔ اِسی دوران کورونا وائرس حملہ آور ہوا جو تقریباً ہر گھر اور ہر خاندان کو متاثر کیے دے رہا ہے اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے۔ اشیائےخورونوش کی قیمتوں میں دو سو فی صد سے زائد اضافہ عام ہے، چنانچہ ستر فی صد آبادی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے اور مائیں فاقہ کشی کے ہاتھوں اپنے بچے نہروں میں پھینک رہی ہیں یا اُن کا گلا دبا دینے پر مجبور ہیں۔ خودکشیوں کی خبریں ہر طرف سے آ رہی ہیں اور ذہنی مریضوں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ گرانی، بےروزگاری اور بےچارگی کا سیلاب رکنے کا نام نہیں لے رہا اور حکومتیں اپنے تمام تر وسائل کے باوجود عوام کو ریلیف مہیا کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ دراصل مختلف نوعیت کے مافیاؤں نے ایوانِ حکومت پر قبضہ کر لیا ہے جو قومی وسائل اپنے مفادات کی پرورش پر بےدریغ خرچ کر رہے ہیں اور جونکوں کی طرح عوام کا خون چوستے چلے جا رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے ملک میں ایسے باشعور افراد موجود ہیں جو گروپ کی شکل میں قومی سیاست، قومی معیشت اور قومی اہداف پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر مسائل کی نشان دہی بھی کرتے ہیں اور اُن کا حل بھی بتاتے ہیں۔ میں نے ایک ویب سائٹ پر دیکھا کہ معاشی معاملات کا درک رکھنے والوں نے پاکستان کے بینکوں کو سب سے طاقتور مافیا قرار دِیا ہے اور یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ عوام کے احوال فاقوں اور خودکشیوں تک جا پہنچے ہیں اور ملکی معیشت ڈوب ڈوب کر سر باہر نکالنے کی جاںلیوا کشمکش سے دوچار ہے، لیکن ہمارے بیشتر بینکوں کے منافع میں صرف ایک سال کے دوران دو سے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ ویب سائٹ پر دس بڑے بینکوں کے منافع کی ہوش رُبا تفصیلات درج ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے تازہ ترین وزیرِخزانہ جو یادش بخیر ایک بینکر ہیں، اُنہوں نے ایک بہت ہی دانش مندانہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ پاکستان کا مرکزی بینک مقامی بینکوں کو ایک فی صد شرح سود پر قرضے دے گا جسے یہ بینک غریبوں اور بےوسیلہ لوگوں کو کاروبار کرنے کے لئے 6 فی صد شرح سود پر دیں گے، گویا بینک مافیا بیٹھے بٹھائے 5 فی صد منافع کمائیں گے۔ 6 فی صد شرح سود پر قرض دینے کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ غریبوں کو قرضے زرضمانت کے بغیر دیے جائیں گے۔ اِس جواز میں کوئی وزن ہے نہ کوئی معقولیت۔ پاکستان میں سالہاسال سے جناب ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم ’اخوت‘ سود کے بغیر قرضے دیتی ہے جس کی واپسی سو فی صد ہے۔ قرض خواہوں سے صرف تین افراد کی شخصی ضمانت لی جاتی ہے۔ عوام سے دوستی کا تقاضا ہے کہ اِسی طریقِ کار کے مطابق غریبوں کو بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ معیشت پھلے پھولے اور خوشحالی کا مکھڑا نظر آئے۔ ماضی میں بیشتر جاگیرداروں، بڑےبڑے صنعت کاروں اور دوسرے طاقتور طبقات نے بینکوں سے اربوں کے قرضے لئے اور بعد میں اثرورسوخ سے معاف کرا لئے۔ وزیراعظم عمران خان اگر واقعی پاکستان کی صورت گری ریاستِ مدینہ کے مطابق کرنا چاہتے ہیں، تو اُنہیں ملکی وسائل کا بہاؤ غریبوں اور بےوسیلہ لوگوں کی طرف کرنا ہو گا۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کیا بینکوں کے منافع میں معتد بہ اضافہ ملکی خوشحالی پر منتج نہیں ہو گا۔ اُن کا بلیغ جملہ تاریخ میں محفوظ رہ جائے گا کہ بینکوں کی منافع خوری تو قبرستانوں کی آمدنی میں اضافے کے مترادف ہے۔ اُن کا منافع جوںجوں بڑھتا جائے گا، اُسی تناسب سے کم وسیلہ اور بےآسرا لوگوں سے قبرستان آباد ہوتے جائیں گے اور اُن کی آمدنی بڑھتی جائے گی۔

تازہ ترین