گزشتہ دنوں ایک بھائی نے اپنی بہن کو کاری قرار دیتے ہوئے کلہاڑی کے وار کرکے قتل دیا۔ ماں اور باپ نے بھی اسے بچانے کی کوشش کی لیککن وہ اپنا کام کرکےتھانے میں پیش ہوگیا۔ گرفتاری دیتے وقت اس نے کہا کہ میں نے اپنی بہن کو قتل کردیا ہے کیوں کہ وہ کاری ہوگئی تھی ۔ سندھ اور بلوچستان میں کاری قرار دے کر قتل کرنا عام رسم ہے۔ کاری اس عورت کا کہا جاتا ہے جو زنا کی مرتکب ہوئی ہو اور اس کے قریبی عزیز اس کے گواہ ہوں اور افواہوں کے ذریعے ان تک بات پہنچی ہو ۔
کاری قرار دینے والے لڑکی اور لڑکے کی موت کا حصول غیرت کی نشانی بن جاتا ہے لڑکی کی قتل کئے جانے کی وارداتیں 90 فیصد جبکہ لڑکے 10 فیصد بمشکل اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کاروکاری کے قتل میں کم و پیش پوری برادری قاتل کی پشت پناہ ہوتی اور اس فعل کو سراہتی ہے جبکہ اس قبیح فعل کی سزا کم ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوپارہا ۔ایک قبیلے میں رواج ہے کہکاروکاری کے جرم کے مرتکب افراد کو برادری کے افرادھونڈ نکالتے ہیں اور پھر برادری کا سربراہ پہلے ان دونوں کا نکاح کرواتا ہے دونوں کے ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی ہے اور پھرانہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ اس قتل کے بعد برادری کا سب سے بوڑھا شخص تھانے میں پیش ہوکرانزخود اقبال جرم کرتا ہے۔
چند سال قبلکہ ایک دس سالہ لڑکا اپنے چچا کے گاؤں گھومنے گیا وہ گرمی کی وجہ سے قمیض اتارے ہوئے تھا اور اس کی بارہ سالہ چچا زاد بہن چارپائی پر سوئی ہوئی تھی اس واقعہ کو لوگوں نے ابھارا اور کاری قرار دے کر دونوں کو قتل کرادیا گیا۔ ایک علاقے میں ایک آدمی سے قتل ہوگیا وہ بھاگا بھاگا گھر گیا اور اپنی بہن کو گھسیٹا ہوا وہاں لے آیا اور اس کی گردن بھی جدا کردی اور پھر کاروکاری کا الزام دونوں پر لگا کہ اپنی جان بچانے کے لئے بہن کی بھینٹ دے دی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی گھرانے کی لڑکی پسند آگئی رشتہ ملنے کے امکانات نہ ہوں تو یوں کیا جاتا ہے کہ اپنے گھرانے کی کسی بوڑھی خاتون کو قتل کرکے اس کا الزام لڑکی کے گھر والوں پر لگا دیا جاتا ہے اور وہ کارو کے الزام میں اس کی جان کے درپے ہوتا ہے اس پر برداری کا جرگہ ہوتا ہے جھوٹی گواہیوں سے کاری کا قتل ثابت کرکے عیوض میں اس لڑکی کا رشتہ طلب کیا جاتا ہے لڑکی کے ورثاء اپنی قیمتی فرد کی جاں بخشی کی خاطر یہ زہر بھرا گھونٹ پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ادھر دولت حاصل کرنے کے لئے بھی اس طرح کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں قاضی احمد میں اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جس میں چانڈیو برادری کے ایک پرائمری ٹیچر کی دو بچیاں جن کی عمریں نو اور گیارہ سال تھیں، ان پر کاری کا الزام لگا کررشتہ داروں نے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ ڈاہری برادری کے ایک سولہ سالہ لڑکے پر اس کے کارو ہونے کا الزام لگایا گیا اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد، تنویر حسین تنیو کا کہنا تھا کہ دو بچیوں کاقتل کرکے اور ڈاہری برادری کے نوجوان کو اس میں کارو قرار دینے کا محرک دراصل نواب شاہ کو قبائلی تنازعہ کی آگ میں جھونکنا تھااور یہ قتل سوچی سمجھی سازش کے تحت کرائے گئے ۔
رڈاہری برادری جو کہ قاضی احمد سے دولت پور تک پھیلی ہوئی ہے، ا سے چانڈیو برداری سے متصادم کراکے قبائلی جھگڑے کی بنیاد ڈالی جانی تھی جس کے بعد قتل و غارت گری کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتااور جس طرح کندھکوٹ ، جیکب آباد، شکار پور ، لاڑکانہ ، دادو اور خیر پور اضلاع میں قبائلی جھگڑے روز مرہ کا معمول اور اس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔
اس کا سلسلہ ضلع شہید بینظیر آباد تک بھی وسیع ہوجاتا ۔ایس ایس پی تنویر حسین تنیونے بتایا کہ چانڈیو برادری کے دو افراد نے ان کمسن بچیوں کے گھر میں گھس کر پہلے بڑی بچی کو یہ کہہ کر قتل کیا کہ تو کاری ہے ان کا کہنا تھا ک اس بچی کو بچانے کے لئے بچی کے ماں اور باپ قرآن شریف لے کر قاتلوں کے سامنے آئے اور کہا کہ ہماری بچیاں معصوم ہیں خدا کے لئے انہیں قتل نہ کرو لیکن انہوں نے یہ فعل قبیح کیا اس دوران چھوٹی بچی بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی لیکن اس کا پیچھا کرکے بھی اسے قتل کیا گیا اور پھر ڈاہری برادری کے ایک لڑکے کو جس کی عمر سولہ سترہ سال تھا اسے کارو قرار دیا اور الزام لگایا کہ وہ موبائل کے ذریعے ان بچیوں سے رابطہ میں تھا۔
جبکہ قتل ہونے والی بچیوں کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی بچیوں کے پاس کبھی موبائل تھا ہی نہیں اور صر ف انہیں کاری قرار دے کر قتل کرنے کے لئے یہ کہانی گڑھی گئی تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کا واقعات رونما ہونے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ قانون شہادت میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں اور اس سلسلے میں نئی قانون سازی کرکے جھوٹا الزام لگانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ سندھ جو کہ امن و آتشی اور انسانیت کا درس دینے والے صوفیاں کی دھرتی کہلاتی ہے اس پر سے بے گناہ بچے اور بچیوں کے بہنے والے خون کا لامتناہی سلسلہ روکا جاسکے۔