• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کالم یہ تعزیت نامہ، میں اس شخص کے لئے لکھ رہا ہوں جو حُب الٰہی اور عشق رسولؐ سے سرشار درویشانہ زندگی گزارنے والا، بے مثل استاد، شفیق معلم، بلند پایہ مفکر، بیدارمغز محقق، صاحب اسلوب ادیب، حق گو شاعر، ژرف نگاہ کالم نگار، علوم دینیہ پر عبور رکھنے والا مستند عالم، محب وطن پاکستانی اور سب سے بڑھ کر ایک دردمند انسان تھا۔ عالمگیر وبا کورونا وائرس نے، جو عذاب الٰہی بن کر مشرق ومغرب پر ٹوٹی، کئی نامور ہستیوں کی قیمتی جانیں لے لیں۔ مجھے ان کا بھی غم ہے مگر اپنے ہمدم دیرینہ پروفیسر محمد یعقوب شاہق کی اچانک رحلت نے مجھے آنسوؤں سے رلا دیا۔ اے کورونا، تجھے کورونا ہی ہوگیا ہوتا! سرزمین کشمیر نے اپنی تاریخ میں سینکڑوں، ہزاروں نابغہء روزگار شخصیات کو جنم دیا ہے ۔ یعقوب شاہق کا شمار بلا شبہ ایسی ہی ہستیوں میں ہوتا ہے۔ 78 سال کی عمر میں علیل تو وہ پہلے ہی تھے۔ چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تھا مگر کورونا وائرس کے خاموش حملے نے انہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔ شدید تکلیف کی حالت میں انہیں اسپتال پہنچایا گیا جہاں تین روز بعد عیدالفطر کے روز وہ جہان فانی سے عالم جاودانی کو روانہ ہوگئے۔ ان کا تعلق آزادکشمیر کے مردم خیز خطے ضلع باغ سے تھا۔ جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کے اولین دور میں کمسنی کے باوجود وہ جلسے جلوسوں اور اجتماعات میں شریک ہوتے رہے جس سے ان میں شعور آزادی اجاگر ہوا۔ پھر آزادی کشمیر کے لئے زندگی بھر قلمی جہاد کرتے رہے۔ عملی زندگی کا آغاز انہوں نے 1958میں بطور مدرس کیا۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے لیکچرار تعینات ہوئے۔ پروفیسر کا رتبہ حاصل کیا۔ مختلف کالجوں کے پرنسپل رہے۔ جہاں بھی گئے علم وعرفان کی شمعیں روشن کرتے چلے گئے۔ ان کے شاگردوں میں جرنیل بھی ہیں اور بیوروکریٹ بھی۔ پروفیسر بھی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں نام پیدا کرنے والے بھی۔ اپنے حسنِ اخلاق سے انہوں نے ایک جہان کو اپنا گرویدہ بنایا۔ اس کا اندازہ ان کے جلوس جنازہ اور تدفین میں شرکت کرنے والے انبوہ کثیر سے ہوا۔ وہ آزادحکومت جموں وکشمیر کی مذہبی کمیٹی کے سیکریٹری اور تعلیمی کمیٹی کے رکن رہے۔ کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور بعد میں صدر منتخب ہوئے اور اساتذہ کے حقوق کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کے ساتھ چھ عشروں سے زائد عرصے کا قلبی تعلق تھا۔ ایم اے اوکالج لاہور میں میرے کلاس فیلو راجہ عبدالطیف خان نے جو شاہق صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے۔ ان سے میرا تعارف کچھ اس انداز سے کرایا جس نے ان کے دل میں مجھ سے قلمی دوستی کی تحریک پیدا کی۔ پھر یہ قلمی دوستی حقیقی دوستی میں بدل گئی ۔ بالمشافہ ملاقات 5 سال بعد اس وقت ہوئی جب ہم قلمی دوستی کے بچگانہ کھیل سے بے نیاز ہوکر عملی زندگی میں داخل ہوچکے تھے۔ میں خارزار صحافت کا مسافر، وہ راہوار علم و دانش کے شاہسوار ، خوب گزری جو مل بیٹھے دیوانے دو۔ ہماری گفتگو کے موضوعات سنجیدہ علمی، سیاسی یا سماجی ہوتے۔ اقبال کی تمام کتابیں انہوں نے ا سکول اور کالج کے زمانے میں ہی پڑھ لی تھیں۔ پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی فکری تحریک سے تعلق خاطر پیدا ہوا اور زندگی پوری طرح اسلامی سانچے میں ڈھل گئی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے مگر زمینی صورتحال سے دل برداشتہ تھے۔ علالت کے دوران زیادہ تر مجھ سے ٹیلیفون پر گپ شپ ہوتی۔ ملکی حالات پر گفتگو ہوتی اور تان اس پر ٹوٹتی کہ پاکستان کا کیا ہوگا؟ اس پر میں ہمیشہ فیض احمد فیض سے منسوب یہ جملہ دہراتا’’مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک اسی طرح چلے گا اور چلتا رہے گا،، یعنی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ۔ اس پر وہ قہقہہ لگاتے اور دعا کرتے، اللہ اسے ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔ اسلام، امت مسلمہ، پاکستان کے اساسی نظریے، تحریک آزادی کشمیر اور دیگر مذہبی سیاسی اور سماجی موضوعات پر ان کے فکر انگیز کالم ملک کے موقر قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ فیض الغنی ان کی پہلی کتاب تھی جس میں انہوں نے اپنے استاد مولانا عبدالغنی ؒ اور دوسرے علمائے کشمیر کے بارے میں لکھا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں اساتذہ کا کردار، ماہ صیام، نیکیوں کا موسم بہار اور بہار ہو کہ خزاں بھی ان کی وقیع کتابیں ہیں۔ عمر عزیز رفت، ان کی اپنی سوانح حیات ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’مضراب، ان کی زندگی میں ا شاعت پذیر نہ ہوسکا۔ جلد شائع ہونے والا ہے، علالت ان کے پڑھنے لکھنے پر بھی اثرانداز ہوئی۔ انہیں احساس ہوگیا تھا کہ دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے۔ آخری وقت میں انہوں نے خود اپنی قبر کا یہ کتبہ لکھوایا۔ پروفیسر محمد یعقوب شاہق ، 9نومبر 1942۔ 13مئی 2021، اک فقیر بے نوا دنیا سے رخصت ہوگیا، اپنی ساری حسرتوں کو ساتھ لے کر سوگیا۔ اے خدا اب معاف فرما اس کی تقصیریں تمام، جو بھی تھا، جیسا بھی تھا، لیکن وہ بندہ تھا ترا۔

گو کہ تھیں اعمال میں کوتاہیاں شاہق بہت

لیکن اس کی چشم تر میں تھا جمال مصطفےٰؐ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین