دیکھیں، احسن اقبال کو کہنے سے روکا تو نہیں جا سکتا، بہرحال یہ فیصلہ انہوں نے نہیں کرنا کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی علاقائی جماعت بن کے ملک کے ایک کونے میں پناہ گزین ہو چکی ہے“۔ قومی اسمبلی میں احسن اقبال کا یہ مکالمہ دائیں بازو کے تاریخی شور کا حصہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وجود میں کسی بھی مرحلے پر جب بھی برے وقت کا کوئی تیر پیوست ہوا، دائیں بازو کے بھٹو مخالف سیاستدانوں اور دانشوروں نے اس تیر کو پیپلز پارٹی کے سانسوں کی ڈور ٹوٹنے سے تعبیر کیا۔ بھٹو مخالف دائیں بازو کا یہ تاریخی شور 1970ء، 1977ء، 1988ء، 1990ء، 1996ء، 2002ء، 2008ء سے جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کو اس شور کے تناظر میں میڈیا ٹرائل کی طغیانیوں، ظلم و جور کی آندھیوں، عدل کے قتل اور کتمان حقوق کے خونیں سیلابوں سے گزرنا پڑا۔ پاکستان پیپلز پارٹی موجود رہی۔ ان دورانیوں میں متعدد بار اقتدار میں آئی، عوام کے نزدیک ہمیشہ وطن کی آبرو اور محافظ قرار پائی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اس تاریخی عظمت میں کبھی فرق نہیں پڑا۔ بالکل ایسے ہی جیسے بھٹو مخالف دائیں بازو کے تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل اس تاریخی شور میں کوئی فرق نہیں پڑا کہ پیپلز پارٹی ”ایک علاقائی جماعت بن چکی ہے“۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک کی ایک عجب سی تاریخی یکسانیت سب کو یاد رکھنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی جان توڑ منصوبہ بندیوں اور کارروائیوں کے باوجود یہ جماعت ہمیشہ فوجی اقتدار کے اختتام پر برسراقتدار آئی، سبب بعد میں عرض کروں گا؟ پہلے ذہن میں اس عجب قسم کی تاریخی یکسانیت کو تازہ کر لیجئے۔
1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ وہ فوجی حکمران ایوب خاں مرحوم سے بغاوت کر چکے تھے۔ ایوب خان کی بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل یحییٰ خان نے زبردستی عنان حکومت سنبھال لی۔ 70ء کے قومی انتخابات کا انعقاد ہوا، ملک کے دولخت ہونے تک اقتدار سے چمٹا رہا، بالآخر کوئی راستہ نہ پاکر بھاری اکثریت سے منتخب جماعت پیپلز پارٹی کا حق حکمرانی تسلیم کر لیا۔1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے دنیا کی پراسرار ترین سازشوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے منتخب اقتدار پر قبضہ کیا، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی، گیارہ برس فوجی آمریت کے بل بوتے پر ملک خراب کیا،17 اگست 1988ء کو ان کی ہلاکت ہوئی، قومی انتخابات منعقد ہوئے اور پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر پھر حکمرانی تسلیم کر لی گئی۔ 2008ء میں جنرل (ر) مشرف بالآخر ایوان صدر سے رخصت ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے اسلام آباد کے تخت پر جلوہ گر ہوئی۔
پیپلز پارٹی کا اپنی تاسیس کے بعد ہر بار کسی فوجی دورانئے یا فوجی حکمران کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنا، دراصل سبب اور شاخسانہ تھا، اس سچائی کا کہ ہر ایسے وقت میں داخلی اور خارجی طور پر ملک ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا تھا، اس کی سلامتی کی کشتی حالات کے بھنور میں ڈوبنے کی حد تک ہچکولے کھا رہی ہوتی تھی، جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے، مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی بھی ملک کو ”ایسے اور اتنے ہی مہنگے“ پڑیں گے۔ پاکستانی عوام کو قبروں میں آرام کرتے اپنے آباؤ اجداد تک کو چیخیں مار مار کر بلانا پڑے گا۔ افواج پاکستان ملک کے بارے میں فکر و غم میں ڈوبی ہوئی ہوں گی، ماحول زیر و زبر ہو چکا ہو گا، آخر کار پاکستان سنبھالنے کے لئے عوام پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے بیلٹ باکسوں کی تلاش میں ہوں گے!
ن لیگ کے احسن اقبال تو خیر70ء کی اس بھٹو مخالف نسل سے متعلق ہیں، اس نسل کی سیاسی روح کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنے لئے خوف اور مرعوبیت کی علامت دکھائی دیتی ہے، حیرت بلکہ جھنجھلاہٹ آمیز بیزاری پی پی کے تازہ ترین منحرفین سے ہوتی ہے، ان سب کی سیاسی تاریخ پیدائش بی بی کی شہادت کے بعد شروع ہوتی ہے، خصوصاً اس لمحے سے جب صدر نے کہا تھا: ”میں بی بی کے آنچل میں پناہ لینے والوں کو جانتا ہوں“۔ ناہید خان اور صفدر عباسی تازہ ترین منحرفین کے اس ”ٹولے“ کے سالار کہے جا سکتے ہیں۔ غالباً گزشتہ برس میں نے دونوں میاں بیوی کے سیاسی سفر کو موضوع بنا کر چند سوالات اٹھائے تھے جس کے بعد ناہید خان یا صفدر عباسی، دونوں میں سے کسی نے مجھے رابطے کا حقدار نہیں سمجھا۔ افسوس دونوں منحرف انتخابات 2013ء کے بعد نئے توشہ خاص کے ساتھ عوام سے مخاطب ہو رہے ہیں، کہانی کی اصل بنیاد سے لوگوں کو کبھی آگاہ نہیں کرتے، ایک جملے میں اصل بنیاد یہ ہے ”آصف علی زرداری کے سیاسی ویژن نے ان دونوں کو سو فیصد مسترد کر دیا“۔ نتیجہ نہ پارٹی میں کوئی ووٹ ہے نہ عوام میں، رہ گئے نوٹ، وہ میرا ایشو نہیں۔ یہ ہر کسی کا اپنا اپنا ”سی وی“ ہے جس کی تفصیلات سے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ 2013ء کے عام قومی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ”عبرتناک شکست“ کے بعد دونوں شخصیتیں حقائق سامنے لانے اور سوالات اٹھانے کے باقاعدہ شوق میں مبتلا ہو چکی ہیں، مثلاً ان دنوں ان کا کہنا ہے۔#2013ء میں آصف علی زرداری کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی۔#پارٹی کے اندر انتخابات کرائے جائیں!جب ناہید خان یہ باتیں کرتیں اور صفدر عباسی ان کی تائید میں سر ہلاتے ہیں، اس وقت میرے خیال میں صفدر عباسی کے پاس سر ہلانے کا واحد آپشن ہی باقی بچتا ہے، سیاسی شرمندگی و خواری کے خزانے کی اصل مالک و مختار ناہید خان ہی ہیں۔ نظریاتی آزادی اظہار کے تحت ان دونوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے چند گزارشات میں بھی ناہید خان کی خدمت میں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ وہ غور فرمائیں۔ ازراہ مہربانی ”جنگ“ کے قارئین کو ان معروضات کے جوابات سے آگاہ کرنے کی زحمت بھی اٹھا لیں۔
(1) 1997ء میں ناہید خان راولپنڈی سے کیوں الیکشن ہار گئی تھیں؟ قیادت اس وقت زرداری خاندان کے پاس نہ تھی، پارٹی کی بلاشرکت غیرے سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تھیں، آپ دونوں میاں بیوی بی بی شہید کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔(2) محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے پورے سیاسی کریئر میں آپ دونوں نے کبھی پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟(3) پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے لاڑکانہ میں ڈاکٹر اشرف عباسی کے خاندان کی سیاسی حیثیت زیرو تھی۔، پی پی پی چھوڑنے کے موجود دور میں 2013ء کے قومی انتخابات میں لاڑکانہ کے عوام نے عباسی خاندان کو ان کی ”زیرو سیاسی حیثیت“ واپس کر دی۔ ناہید خان، ڈاکٹر صفدر عباسی، منور عباسی اور ان کا صاحبزادہ معظم عباسی وہاں سے الیکشن ہار گئے۔ (4) ایک دور میں ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی تھیں، ان کا ایک بیٹا سندھ میں صوبائی وزیر تھا، دوسرا بیٹا وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا پولیٹیکل سیکرٹری اور سینیٹر تھا۔ اس وقت ڈاکٹر صفدر عباسی لاڑکانہ کی سیاست پر ایک خاندان کے ”قبضے“ کا کیوں مشاہدہ نہ کر سکے؟ (5) 1997ء میں جب ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان دونوں محترمہ شہید کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے؟ اس وقت پی پی کو بطور جماعت الیکشن میں انتخابی شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا، قائد تو بی بی شہید ہی تھیں! سندھ میں بھی پی پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی جبکہ قومی اسمبلی میں اس کو صرف 18 نشستیں مل سکیں۔ امید ہے دونوں افراد ان چار سوالیہ نکات کی جوابی وضاحت سے آگاہ کریں گے۔
2013ء کے قومی انتخابات میں ”پاکستان پیپلز پارٹی کے انجام“ کے موضوع کا تجزیہ و جائزہ آئندہ کے کسی موقع پر اٹھا رکھتے ہیں!