چار سدہ (نیوز ایجنسیاں)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) تقسیم کا شکار ہے، اس کا وژن بھی واضح نہیں، جو پارٹی نظریئے پر کلیئر نہیں وہ کیا مقابلہ کریگی، حکومت کو ہٹانے کے نکتے پر سب متفق ہیں، ایک ساتھ وقت گزارا ہے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا اچھا نہیں لگے گا۔
سب ملکر حکومت اور عمران خان کو نشانہ بنائیں تو سب کیلئے بہتر ہوگا، چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل کر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کرے اور متفقہ حکمت عملی بنائے، چاہتاہوں اپوزیشن جماعتیں کم ازکم پارلیمنٹ میں کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔
نالائق، نااہل، سلیکٹڈ حکومت کے سامنے دیواربن کرمقابلہ کرینگے، جب تک ایکشن پلان پر واپس نہیں آئینگے اْس وقت تک پی ڈی ایم کا حصہ بننے کا فائدہ نہیں، نااہل حکومت خارجہ پالیسی پر غیرسنجیدہ ہے،جو صورتحال افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے اس میں اس ناتجربہ کار حکومت کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے اور پورے خطے کیلئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
پی ڈی ایم کے تحت احتجاجی مرحلے کا آپشن موجود تھا، عدم اعتماد کا آپشن بھی احتجاج کاحصہ تھا ، عدم اعتماد کی صورت میں نہ بزدار رہتا نہ وزیراعظم رہتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں اے این پی کے رہنمائوں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری نے چارسدہ جا کر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر وائس پریذیڈنٹ امیر حیدر خان ہوتی اور دیگر اے این پی لیڈروں کیساتھ بزرگ سیاستدان بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر تعزیت کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، سید نیر حسین بخاری، سینیٹر فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی و دیگر بھی بلاول بھٹو کے ہمراہ تھے۔
بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے عوام اس نااہل حکومت کی وجہ سے شدید خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں،عوام تاریخی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے اے این پی کے ساتھ سیاسی اور نظریات رشتہ ہے اور دونوں جماعتیں ترقی پسند سیاست اور نظریے پر یقین رکھتی ہیں، دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ پاکستان ایک پرامن، خوشحال اور پروگریسیو ملک بنے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی اور اے این پی دونوں نے پی ڈی ایم کے عہدیداروںنے استعفے دے دئیے ہیں اور اب دونوں نے پی ڈی ایم میں شامل ہونے کا کبھی بھی اظہار نہیں کیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم پی ڈی ایم نے ایک ایکشن پلان پر عمل پیرا تھے جس میں پارلیمان کے اندر اور باہر جدوجہد کرنا شامل تھا، ہمارے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ ہم پارلیمان میں اس حکومت کیخلاف عدم اعتماد لائیں جس کو استعمال نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم ابھی تک پیپلزپارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس نے پارلیمان سے استعفے نہیں دئیے ہیں اور وہ پارلیمان کے اندر حکومت کی مخالفت کرنے کی بات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ ورز پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کسی حکمت عملی پر بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں کوئی کلیریٹی موجود ہے،ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل کر پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کرے اور متفقہ حکمت عملی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہم ملکر ایکشن پلان پر عمل کرتے اور پارلیمانی آپشن استعمال کرتے تو اب تک پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ایکشن پلان پر واپس نہیں آتے تو پی ڈی ایم میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ اسوقت ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔