• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’یار! یہ ’’بال‘‘ اور ’’کورٹ‘‘ کہاں ہیں؟ ‘‘
’’کونسی ’’بال‘‘ اور کونسی ’’کورٹ‘‘؟
’’یہ جو اخبارات، ٹی وی مباحثوں وغیرہ میں سیاستدان، وکلاء، صحافی، اساتذہ، اب تو عام شہری بھی جن کا تذکرہ کرتا رہتا ہے؟‘‘
’’تمہارا مطلب اس ’’بال‘‘ سے تو نہیں جو ہر روز کسی نہ کسی کی ’’کورٹ‘‘ میں پھینکی جاتی ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں! اسی ’’بال‘‘ اور اسی ’’کورٹ‘‘ کا تو پوچھ رہا ہوں‘‘
’’یہ دراصل ایک اصطلاحی محاورہ ہے جس سے کسی مسئلے کے حل کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال دینے کا اخلاقی جواز مل جاتا ہے‘‘
’’مگر ان ’’بالوں‘‘ اور ’’کورٹوں‘‘ کی کل تعداد کتنی ہے؟ پہلے میں سنتے سنتے اور اب گنتے گنتے تنگ آ گیا ہوں؟‘‘
’’تمہیں بار بار غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ میں کہہ چکا ہوں، یہ ایک اصطلاحی محاورہ ہے، تمہارا ذہن دراصل اس ’’بال‘‘ پر اٹکا ہوا ہے جسے ’’گیند‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس ’’کورٹ‘‘ پر جو ’’عدالت‘‘ کہلاتی ہے، ایسا نہیں ہے، یہ ’’بال‘‘ نہ وہ ’’گیند‘‘ ہے جو کرکٹ اور ’’ہاکی‘‘ میں استعمال ہوتی ہے نہ وہ کورٹ ہے جسے سیشن کورٹ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کہا جاتا ہے۔ یہ محض ایک ضرب المثل کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے، اس کا زیادہ تر استعمال سیاستدان ہی کرتے ہیں‘‘
’’کمال کا لذیز کاروبار ہے؟
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ اس ’’بال‘‘ کو ہر وقت پاس رکھنے اور ضرورت پڑنے پر ٹھک سے دوسرے کی ’’کورٹ‘‘ میں پھینکنے کے علاوہ متعلقہ حضرات کو کوئی اور کام ہی نہیں!‘‘
’’مزید وضاحت کرو‘‘
’’مثلاً چوہدری نثار کو جب بھی وقت ملتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں ’’بال خورشید شاہ کی کورٹ میں ہے‘‘، خورشید شاہ آصف علی زرداری کی قیادت سے ’’جان چھڑائو منصوبے‘‘ کی مصروفیت سے فارغ ہوتے ہی بیان داغ دیتے ہیں، ’’میں چوہدری نثار کو چیلنج کر چکا ہوں، میں کہہ چکا ہوں، بطور اپوزیشن لیڈر میرا مفادات حاصل کرنا ثابت کیا جائے۔ اب ’’بال‘‘ چوہدری نثار کی ’’کورٹ‘‘ میں ہے،
لال حویلی کے شیخ رشید کی ’’بال‘‘ نے مجھے سب سے زیادہ حواس باختہ کر رکھا ہے۔ یار! ان کی ’’کورٹس‘‘ کی تو تعداد ہی الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ شیخ صاحب، اب تو اپنی ’’بال‘‘ امریکہ، سعودی عرب، عمران خان، نواز شریف، جماعت اسلامی، افواج پاکستان، میڈیا، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن، ڈاکٹر طاہر القادری، اور نہ جانے کس کس کی ’’کورٹ‘‘ میں پھینک چکے اور پھینکتے چلے جا رہے ہیں، نہ ان کے بازو تھکتے ہیں، نہ دوسروں کی ’’کورٹس‘‘ کے گیٹ بند ہوتے ہیں، نہ انہیں پسینہ آتا ہے نہ ان کی سو فیصد غلط پیش گوئیاں اور ایک لاکھ فیصد غلط تجزیوں کے دورانیوں میں کوئی ڈیش یا فل اسٹاپ لگتا ہے، آخر یہ سب کیا بکواس ہے، ہم پاکستانی عوام کا ان حضرات کی اس پنگ پانگ گیم یا گیموں سے کیا تعلق واسطہ؟
’’تمہاری بات ختم ہو گئی یا ابھی کلام ادھورا ہے؟‘‘
’’ابھی ادھورا ہے؟ ان میں حضرات کو کم از کم دو ایسے غیر معمولی افراد سے ہی سبق سیکھنا چاہئے جو اپنے پاس یہ بال رکھتے ہی نہیں، ’’کورٹ‘‘ کی تلاش تو بعد کا مسئلہ ہے، وہ ہیں، حضرت سید قائم علی شاہ اور جناب آصف علی زرداری ایک بیان دکھا دو، جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک نے کبھی بھی کوئی ’’بال‘‘ کسی کی کورٹ، کی طرف اچھالی ہو۔
آصف علی زرداری سے شاید ایک آدھ بار ایسا سہو ہو گیا ہو، حضرت شاہ صاحب کی تو میںقسم کھانے کو تیار ہوں۔‘‘
’’ویسے تم ایک سوال کا جواب دو، تمہیں ’’بالوں‘‘ اور ’’کورٹس‘‘ کی ان نیٹ گیموں سے اتنی الرجی یا ان پر اس قدر کا طیش کیوں آتا ہے!‘‘
’’اس لئے کہ مجھے اصل سچائی سے آگاہی ہے۔‘‘
’’اصل سچائی؟‘‘
’’ہاں! اصل سچائی، اس سچائی کی زمینی حقیقت کے مطابق یہ سب لوگ حد درجہ خوشحال، با اختیار و بارسوخ، ان کی آل اولادیں خیرہ کن سہولتوں سے خمار ’آلودہ‘ مشکلات و مسائل کے لئے ان کے وسائل کی تعداد اطمینان سے کہیں زیادہ، لائف فل انجوائے کرتے ہیں، جو براہ راست اقتدار میں نہیں وہ اقتدار کے کلچر کا پورا پورا حصہ ہیں، اب انہیں وقت گزارنا ہے، چودہ پندرہ گھنٹے کا دن ہوتا ہے، نہ سارا دن لذیز کھانے کھا سکتے ہیں، پیٹ پھٹ جائیں گے، نہ نو بہ نو مشروبات میں بد احتیاطی کی جا سکتی ہے، سر درد سے لے کر برین ہمبرج تک کا خطرہ ہوتا ہے، یہ سب سے محفوظ اور سب سے پُر کشش نیٹ پریکٹس ہے، محاورہ یاد کرو، گیند اٹھائو، اگلے کی کورٹ میں پھینک دو‘‘
’’لگتا ہے حسد میں پھُنکے جا رہے ہو‘‘
’’لگتا نہیں، باقاعدہ و باضابطہ پھُنکا جا رہا ہوں، کاش میں دوستو نسکی یا میکسم گورکی ہوتا، پھر اس ذلت کا نقشہ کھینچتا جس سے ایک عام پاکستانی کو، ان سے ملنے کے دوران میں گزرنا پڑتا ہے، تم بھی پھُنکنے لگتے۔ قہر خدا کا ہاتھوں میں ’’بال‘‘ پکڑے ’’کورٹ کورٹ‘‘ کھیلتے رہے ہیں، اب جناب اسحاق ڈار کو لے لو، اچھے خاصے ارب پتی ہیں، کیا ضرورت ہے ’’بال ‘‘ پھنکنے کی لیکن جونہی آئی ایم ایف کی ’’کورٹ‘‘ دکھائی دیتی ہے چاہے کسی اندھیرے کنویں کی آخری تہہ میں ہو، جھٹ ’’بال‘‘ وہاں پھینک دیں گے، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، اور عابد شیر علی، ان کا ’’بال‘‘ اٹھانے اور پھینکنے کا گیم کلچر ویسے ہی تہذیب کا بحران ہے، میرا تو دل کرتا ہے ان سب کے ’’بال‘‘ چھین کر اور یہ ’’کورٹس‘‘ کالعدم قرار دے کر، انہیں کسی بڑی ’’کورٹ‘‘ کا حقیقی سامنا کرا دوں، تب کہیں میرے دل کو ٹھنڈ پڑے گی۔ ’’بال‘‘ اور ’’کورٹ‘‘ کی عیاشی پر ہی اکتفا نہیں کرتے دو اور اصطلاحوں کے استعمال سے بھی میرے جیسوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں ’’دو اور اصطلاحیں؟ وہ کونسی؟‘‘
’’وہ ہیں ’’ون پیج‘‘ اور ’’فرانزک آڈٹ‘‘ ، یہ کیا ہیں اور کیوں ہیں؟
’’دیکھو، ’’ون پیج پر‘‘ کا مطلب ہے، میرے اور میرے مقابل فریق میں کوئی تنازع نہیں، ہم سو فیصد ’’متفق علیہ‘‘ قبیلہ یا دو افراد ہیں، ہم ’’ون پیج‘‘ پر ہیں، ’’فرانزک آڈٹ‘‘ کا مطلب ہے، اگر کسی کو میری دولت میں کوئی ایچی پیچی دکھائی دیتی ہے یا شبہ وغیرہ ہے، وہ اکائونٹس کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے اس کا آڈٹ کرا لے، انشاء اللہ خون پسینے کی کمائی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے ہی سابقہ پڑے گا، آخر ان دونوں اچھی باتوں پر تمہیں کیا اعتراض ہے؟ ایک کا تعلق لڑائی کے بجائے اتفاق کے سہانے ماحول، دوسرے کا دیانتداری کی عظمت سے!‘‘
’’ایسا ہی ہو گا، اعتراض ان کے ظاہری یا باطنی معنی پر نہیں، ان کے حوالے سے معروضی صورت احوال پر ہے، ہم سب ’’ون پیج‘‘ پر ہیں کا غلغلہ اس وقت بلند ہوتا ہے جب کبھی ’’آرمی چیف‘‘ کوئی تقریر کر دیتے ہیں اور ’’فرانزک آڈٹ‘‘ کا چیلنج اس وقت کیا جاتا ہے جب ’’منی لانڈرنگ‘‘ وغیرہ کی خبریں آتی ہیں، ان دونوں مواقع پر ہم سب ون پیج پر ہیں‘‘ اور ’’فرانزک آڈٹ‘‘ کا کورس سانگ شروع ، چکر کیا ہے؟
’’چکر تم مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھو جن کے پاس ایک نہیں چار چار ’’بال‘‘ موجود ہیں، ایک ہی وقت میں وہ وفاق، پنجاب، پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا، حکومت کی کورٹوں میں پھینکتے رہتے ہیں۔
’’دیکھنا تم، یہ کہیں ’’نو بال‘‘ ہی نہ ہو جائے؟
’’ہو جائے مولانا فضل الرحمٰن کو پھر بھی فرق نہیں پڑے گا، وہ سب کے ساتھ ’’ون پیج‘‘ پر ہیں!
تازہ ترین