• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنڈز کی عدم فراہمی... کم زور نظامِ صحت کیلئے ایک اور بڑا چیلنج

گزشتہ برس سے پوری دنیا سمیت پاکستان بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے شعبۂ صحت پر تیکنیکی اور معاشی دبائو میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ۔پاکستان جیسے ترقّی پذیر ممالک ،جہاں ایک حد سے زیادہ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں میسّر نہیں ،وہاں بہ یک وقت لاکھوں افراد کو علاج فراہم کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں کہ اس کے لیے جدید ترین اسپتال، طبّی آلات ، سازوسامان، ادویہ اور تربیت یافتہ عملہ ناگزیر ہے، تو ایسے میں شعبۂ صحت کے لیے فنڈز کی فراہمی نہایت ضروری ہے ۔ 

اس ضمن میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب تین لاکھ افراد روزانہ کورونا میں مبتلا ہونے لگے ،تومُلک کا نظامِ صحت جواب دے گیا اورنوبت یہاں تک آپہنچی کہ لوگ سڑکوں ، فٹ پاتھوں، رکشوں میں مرنے لگے۔پاکستان میں کورونا کیسز کی بڑھتی تعداد الارمنگ ہےکہ رفتہ رفتہ اسپتالوں میںجگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ 

وسائل کی کمی کے باعث پاکستان کئی عشروں سے صحت کے شعبے کے لیے سالانہ بجٹ میں جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم مختص کر رہا ہے، حالاں کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق صحت کے شعبے کےلیے جی ڈی پی کا کم ازکم 6فی صد مختص کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ غریب افرادپر مشتمل ہے، جنہیں بنیادی علاج معالجے تک کی سہولت میّسر نہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی کم تعداد کے باعث لوگوں کو علاج کےلیے منہگے ترین نجی شعبے پر انحصار کرنا پڑتا ہےاور یہ علاج اکثریتی آبادی کی پہنچ سے باہر ہے۔

پھر سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز، عملے، طبّی آلات اور سازوسامان کی بھی سخت کمی ہے۔ گرچہ 18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، لیکن صوبے بھی اپنے محدود وسائل کی وجہ سےاس مَد میں زیادہ رقم مختص کرنے میں ناکام ہیں۔اس حوالے سے وفاقی حکومت نے’’ صحت انصاف کارڈ ‘‘کا اجراء کیا ،تاکہ مُلک کے غریب افراد کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ جب کہ صحت انصاف کارڈ کےلیے رقم کی فراہمی کےضمن میں سگریٹ اور شکر والے مشروبات پر ہیلتھ لیوی کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

ہمارے یہاں شعبۂ صحت پہلے ہی انحطاط کا شکار تھاکہ کورونا نامی عذاب بھی نازل ہوگیا۔ معیاری علاج معالجہ پہلے ہی غربا کی پہنچ سے دُور تھا اور اب تو مسائل دَر مسائل ہیں۔یوں کہیے، کورونا وائرس کی وبا نے ہمارے شعبۂ صحت کی تمام تر خامیاں عیاں کرکے رکھ دی ہیں۔آج سب کو شدّت سے احساس ہورہا ہے کہ صحت کے لیے مختص بجٹ انتہائی کم ہے۔ اس وقت ہمارے نظامِ صحت کےلیے ایک بڑا چیلنج فنڈز کی فراہمی کا ہے،کیوں کہ وافر فنڈز نہ ہونے کے باعث پاکستان کوکورونا ویکسین حاصل کرنےکے لیے عطیات کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ 

وفاقی وزارتِ صحت نے وسائل کی مستقل فراہمی کےلیے سگریٹ اور شکر والے مشروبات پرہیلتھ لیوی کے نفاذ کی تجویز دی تھی اوراس کے لیے بِل کی سمری تیار کرکےوفاقی کابینہ میں پیش بھی کی تھی ۔پھر وفاقی کابینہ نے جون 2019ءمیں وفاقی ہیلتھ لیوی بِل کی منظوری دی ، مگرتا حال سگریٹ پر ہیلتھ لیوی کے نفاذ کامعاملہ تاخیر کا شکا رہے۔اور اس ہیلتھ لیوی کا نفاذ نہ ہونے سے مُلک کو سالانہ 38ارب روپے سے زاید کا نقصان ہورہا ہے ۔ وزارتِ قانون 2019ءمیں اس بِل پر اپنی رائے دے چُکی ہے، جس میںتمام اعتراضات کور َد کر دیا گیا تھا، مگر اس کے با وجود ہیلتھ لیوی کا نفاذ نہ ہونا ،ملکی اداروں کےلیے سوالیہ نشان ہے۔

در اصل تمباکو کمپنیوں کی جانب سے مسلسل دبائو اور اثرو رسوخ کے باعث اس بِل پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوپارہی۔حالاں کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمباکو نوشی جان لیوا بیماریوں کی موجب ہے اور ماہرین کے مطابق کورونا وائرس،تمباکو نوش افراد کےلیے زیادہ خطر ناک ثابت ہورہا ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق ہیلتھ لیوی بِل میں 20سگریٹس کے حامل پیکٹ پر10روپے ہیلتھ لیوی اور شکر والے مشروبات کی 250ملی لیٹر بوتل پر ایک روپیا ہیلتھ لیوی لگانے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 38ارب روپے سے زاید ریونیو حاصل ہوگا ۔ یہ منافع کورونا وائرس کی ویکسین کی خریداری سمیت صحت کے شعبے کی ترقی اور آبادی تک صحت کی سہولتوں کی رسائی کےلیے استعمال میں لایا جا سکےگا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجے پر اُٹھنے والے مجموعی اخراجات کا حجم 615ارب روپے سے زایدہے، جب کہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں صحت کےلیے 25ارب94کروڑر وپے مختص کیے گئے تھے۔ پنجاب حکومت نے 284ارب روپے ، سندھ حکومت نے 139 ارب روپے ، خیبرپختون خوا حکومت نے 124ارب روپے اور بلوچستان حکومت نے 31ارب روپے مختص کیے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اوسطاً فی خاندان سگریٹ پر مجموعی آمدنی کا 3فی صد سے زاید خرچ کرتا ہے اوردیکھنے میں آیا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکسز میں اضافے اور اس کی قیمتیں بڑھنے سے اس کے استعمال میں کمی واقع ہوتی ہے۔

عالمی سطح پر سگریٹ کے استعمال کو صحت کےلیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہےاور اب کورونا وائرس نے توسگریٹ نوش افراد کےلیے خطرات کئی گُنا بڑھا دئیےہیں۔دنیا کےکئی ممالک میں ہیلتھ لیوی طرز کے ٹیکس نافذ ہیں ،جن میں تھائی لینڈ ، برطانیہ ، سعودی عرب ، یو اے ای ، میکسیکو، فرانس ، فلپائن اور دیگرممالک شامل ہیں اور ان ممالک میں ٹیکسز میں اضافے سے سگریٹ نوشی میںواضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ امکان ہے کہ پاکستان میں بھی ہیلتھ لیوی کا نفاذ آئندہ مالی سال سے ہوجائے گا۔

اس حوالے سے وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی ،ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ سال ہیلتھ لیوی بِل کو فنانس بل کےذریعے نہ لانے کی وجہ یہ تھی کہ بیوروکریسی نے بِل کو فائلز سے غائب کر دیا اوراسے دانستہ طور پر گزشتہ سال کے فنانس بِل میں شامل نہیں ہونے دیا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’’ہم وہ روزانہ کی بنیاد پر ہیلتھ لیوی بِل پر پیش رفت کی رپورٹ لے رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اسے لازماً شامل کرکےنافذ کیا جائے گا اور اس کےلیے تمباکو کی بااثر صنعت کا دبائو کسی صُورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔‘‘

تازہ ترین