آج ہم جو کہانی سُنانے جارہے ہیں۔ اُسے سنتے ہوئے آپ اُداس بھی ہوں گے اور آنکھیں نم بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ اُس فن کار کی کہانی ہے، جو ورائٹی شوز اور ٹی وی اسکرین پر کئی برس تک قہقہوں کا طوفان برپا کرتا رہا۔ آج وہ اُداسی کے سمندر میں کیوں ڈوب رہا ہے، اس نے ساری دُنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ایسے باکمال فن کار کے لیے ثقافتی اداروں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
ثقافتی اداروں کی ایسی بے حسی ہم نے اس پہلے نہ دیکھی، نہ سُنی۔میرا رب کسی کی بَنا کر نہ بگاڑے۔ وہ اپنے استاد معین اختر کو ’’صاحب ‘‘ کہتا تھا۔ آج ’’صاحب‘‘ کو اس دُنیا سے گزرے دس برس بیت گئے، اُس کی آنکھیں آج بھی اپنے ’’صاحب‘‘ کی جدائی کے غم سے نَم ہیں ۔ معین اختر زندہ ہوتے تو اس فن کار کو گول گپّے (پانی پُوری) کے اسٹال پر بیٹھا دیکھ کر تڑپ اٹھتے۔ یہ دُکھ بھری داستان ہے،ہم سب کے پسندیدہ مزاحیہ فن کار فیصل قاضی کی۔
وہ اِن دنوں کبھی خوشی، کبھی غم، کی ملی جلی کیفیات کا شکار ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اس بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ فن کار کو معاشرہ محنت سے اپنے بچوں کے لیے روزگار کمانے بھی نہیں دیتا۔ ہائے رے قسمت!! پولیس والے اسے گول گپے ( پانی پُوری) بھی سُکون سے فروخت کرنے نہیں دیتے ہیں۔
فیصل قاضی نے ہمیں دُکھی انداز میں بتایا کہ’’پولیس دو ہزار روپے ہفتہ مانگ رہی ہے،کہاں سے لا کر ان کو دوں۔‘‘ اُس کے لہجے میں مایوسی نے اپنی گرفت مضبوط کررکھی تھی۔کیا ہم اپنے فن کاروں کی اس طرح قدر کرتے ہیں؟ دُنیا بھر میں ثقافتی سفیر کا درجہ رکھنے والے فن کار اپنے ہی ملک میں اتنی دُکھی اور پریشان اور مالی مسائل کا شکار ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں!! وہ کوئی عام فن کار نہیں ہے۔
فیصل قاضی نے وزیر اعظم عمران خان کی کینسر اسپتال کی مہم کے لیے مختلف ممالک میں کئی شوز بلا معاوضہ پرفارم کیا۔ دو دہائیوں تک ایک سے بڑھ کر ایک مزاحیہ پروگراموں میں ہنسا ہنسا کر ہمیں خوشیاں فراہم کرتا رہا۔ وہ آج کل پریشان کیوں ہے، یہ جاننے کے لیےگزشتہ دنوں ہم نےفیصل قاضی سے ایک ملاقات کی، اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ ’’ان دنوں مالی مسائل کا شکار ہوں، رواں برس مارچ میں ترکی میں ایک ٹی وی کمرشل کیا، اس سے جو معاوضہ ملا، اس رقم سے گلشن اقبال ڈسکو موڑ کے پاس ایک دکان کے باہر پانی پوری کا چھوٹا سا اسٹال لگالیا۔
آہستہ آہستہ یہ چلنے لگا، تو پولیس نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ پانی پُوری میں اتنی کمائی تھوڑی ہے کہ میں پولیس والوں کا پیٹ بھی بھرسکوں۔لاک ڈاؤن کی آڑ میں پولیس نے دھندہ شروع کررکھا ہے۔ شاید ان کو معلوم نہیں کہ میں پُوری دُنیا گھوم چکا ہُوں۔ میرے پاس امریکا کی تین بڑی ریاستوں کی اعزازی شہریت ہے۔ جنید جمشید، معین اختر، ریما، ندیم کے بعد مجھے یہ اعزاز حاصل ہے۔ میرے پاسپورٹ پر ابھی بھی پانچ سال کا ویزا لگا ہوا ہے۔‘‘
اتنی ساری کام یابیاں سمیٹنے کے بعد پانی پُوری کا اسٹال لگانا پڑا، ’’مایوسی تو ہوتی ہوگی؟،، ہمارے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ’’اس میں مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ میں تین برس سے سوچ رہا تھا کہ عام طور پر دہی بڑے، گول گپّے ٹھیلوں پر فروخت کرنے کی روایت ہے۔ میں کچھ نیا کرتا ہوں، میں نے گول گپّے کا اسٹال لگا کر اسے نیا رنگ دیا ہے،اس کا سوشل میڈیا پر پروموشن بھی کیا، تو اچھا رسپانس ملا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کل میں ’’آف اسکرین‘‘ ہوں، لیکن اس کے باوجود بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوں۔ لوگ گول گپّے کھانے آتے ہیں اور خوشی خوشی میرے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں بنواتے ہیں۔ دُکھ اور تکلیف اس بات کی ہے کہ میڈیا مجھ سے کام نہیں لے رہا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اب بھی بہت اچھا اور نیا کام کرسکتا ہوں، لیکن میرے بارے میں میڈیا میں منفی باتیں پھیلائی گئیں کہ میں بہت مغرور ہُوں اور تھوڑے سے کام کے بہت پیسے مانگتا ہوں۔
شوٹنگز پر وقت پر نہیں پہنچتا، حالاں کہ یہ سب کچھ غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنا کام پُوری ایمان داری اور سچائی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جہاں میڈیا پر نئے لوگوں کو کام دیا جارہا ہے، وہاں مجھ سے بھی کام لیا جائے۔ بے شک میں ڈراموں میں ہیرو آنا نہیں چاہتا، لیکن دل چسپ مزاحیہ کردار تو ادا کرسکتا ہُوں۔
کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ڈپریشن کا مریض بن جائوں، لیکن میں ہمّت ہارنے والا نہیں۔ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سےپڑھتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ سب سے بڑا رازق میرا رب ہے۔ ماں کی دعائوں سے زندگی بسر کررہا ہوں۔ بے شمار پروڈیوسرز میرے دوست ہیں، لیکن میں انہیں کام کے وقت نظر نہیں آتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں کسی کا محتاج نہیں۔ محنت پر یقین رکھتا ہوں، شوبز میں 27برس سے کام کررہا ہوں۔
ماضی میں بینکر بھی رہا ہوں، مارکیٹنگ بھی کی ہے۔ قاسم جلالی نے اپنے ایک شو میں کام کرنے کا موقع دیا، تو مجھے بہت مقبولیت ملی۔ 80اقساط پر مبنی مزاحیہ پروگرام ’’غفار ایٹ دھورا جی،، دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ 2007ء میں عمران خان کے ساتھ ان کے اسپتال کے لیے چندہ مہم کے سلسلے میں امریکا گیا، تو مجھے وہاں معلوم ہوا کہ میرے مذکورہ شوز کی چھ لاکھ ڈی وی ڈیز فروخت ہوئی ہیں۔ معلوم نہیں میرے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو غلط فہمیاں کیوں ہیں، جب کہ میں نے اپنے پُورے کیریئر میں کبھی کسی کو نیچا نہیں دکھایا۔‘‘
یہ وہی فیصل قاضی ہیں، جنہوں نے 1991ء میں شوبزنس کیریئر کا آغاز کیا۔ اطہر شاہ خان جیدی مرحوم کا مقبول ڈراما ’’ہائے جیدی‘‘میں پہلی مرتبہ پرفارمینس دی۔ اس کے بعد بے شمار ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مقبول ڈراما سیریل ’’سچ مچ‘‘ میں نوکر کے کردار سے بے حد شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ سچ مچ، میں انہیں صرف ایک قسط میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تھا، مگر ہدایت کار نے ان کی عمدہ پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے تقریباً 250 اقساط میں فن کارانہ صلاحیتوں کا جادو جگانے کا موقع فراہم کیا۔ اس ڈراما سیریل میں انہوں نے معین اختر کے ساتھ جم کر اداکاری کی۔
علاوہ ازیں جب جیو ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا، تو درجنوں دل چسپ پروگراموں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ’’سیلیبریٹی آن لائن‘‘ جیو ٹیلی ویژن کا بے حد مقبول پروگرام ثابت ہوا۔ فیصل قاضی اس کام یاب اور مقبول پروگرام کے کمپیئر تھے۔ انہوں نے مذکورہ پروگرام میں برّصغیر سے تعلق رکھنے والی درجنوں شوبزنس شخصیات کے دل چسپ اور یادگار انٹرویوز کیے۔ تقریباً ڈھائی برس تک اس پروگرام کی کمپیئرنگ کی۔ اس کے بعد فیصل قاضی کو نجی ٹیلی ویژن کے مزاحیہ پروگرام ’’غفار ایٹ دھورا جی‘‘ اور ’’ذرا لیٹ سو‘‘ میں بھی سراہا گیا۔
جیو ٹیلی ویژن کے ڈراما ’’پہلا چاند‘‘ میں ان کی پرفارمینس کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کے دیگر مقبول ڈراموں میں پتھر کا چاند، نثری گانے، چانپ تیار ہے، کلّو کبابیہ اور کیا کرے گا قاضی وغیرہ شامل ہیں۔ شوبزنس کے اس کٹھن سفر میں انہیں معین اختر جیسے منجھے ہوئے فن کار کا ساتھ میسّر رہا۔ معین اختر مرحوم نے قدم قدم پر فیصل کی راہ نمائی کی۔
فیصل قاضی نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں ایئرفورس میں انجینیربننا چاہتا تھا۔ ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا۔اُس وقت میں صرف تین سال کا تھا۔ موٹر سائیکل کے نیچے آگیا تھا۔ وہ ٹانگ آج بھی ٹیڑھی ہے۔ میں نے زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ کام یابی حاصل کریں اور دوسری کی جدّوجہد میں لگ جائیں۔ مجھے زندگی میں کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں کام سے بالکل نہیں تھکتا۔ شہرت نے مجھے بہت حسّاس کردیا۔ پہلے بہت لاپروا تھا، اپنا خیال نہیں رکھتا تھا۔
اب اپنا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ جانتا ہوں کہ شوبزنس میں کوئی منزل نہیں ہے۔ 20 ستمبر 1973ء کو میں کراچی میں پیدا ہوا۔ آج بھی خود کو20 برس کا سمجھتا ہوں، جب کہ لوگ مجھے سمجھاتے ہیں تم 20 برس کے نہیں ہو۔کالج میں اداکاروں کی نقل اتارتا تھا۔ خاکے سُناتا تھا۔
منصور زبیری کے چھوٹے بھائی طالب زبیری نے مجھے شوبزنس میں متعارف کروایا۔ معین اخترمرحوم سے شوبزنس میں آنے کے تقریباً 4 سال بعد ملاقات ہوئی اور پھر جب تک وہ زندہ رہے، میں ان کے ساتھ رہا۔ میرا بچپن شرارتوں سے بھرا ہوا تھا، بچپن کی زیادہ باتیں یاد نہیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ اس لیے اکیلے ہی کھیلتا رہتا تھا۔ آج بھی مجھے تنہا رہنا اچھا لگتا ہے۔ شوبزنس میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ مشکلات کیا ہوتی ہیں۔
مخالفت، اونچ نیچ کے بارے میں علم ہوا۔کام یابی حاصل کرنے کے لیے انا کا گلا گھونٹ دینا چاہیے اور جو لوگ غلامی پسند ہیں۔ ان کو روز سلام کرنا چاہیے۔ یہ تو خیر ایک مذاق تھا۔ دراصل کام یابی کے لیے کام کا شعور بہت ضروری ہے۔ میرے اساتذہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ سائنس کی ٹیچر مجھے اکثرنصیحت کیا کرتی تھیں۔
وہ مجھے اچھی اچھی چیزیں کھلاتی تھیں۔ ان کی باتیں آج بھی یاد آتی ہیں۔ مجھ پر الزام ہے کہ میں معین اختر کی نقل کرتا ہوں۔ میڈیا کے دوست بھی مجھ سے یہ سوال بار بار پوچھتے ہیں۔ اس بارے میں یہ ہی کہتا ہوں کہ کامیڈی کے شعبے میں کوئی جانشین پیدا نہیں ہوتا۔ معین صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ بڑا انسان بننے کا ڈھنگ اُن سے سیکھا۔
معین اختر کی آواز میں بہت اچھا بول سکتا ہوں، مگر میں ایسا نہیں کرتا۔ میں ان کے انداز کو اپنے انداز میں شامل کرتا ہوں۔ خوش لباسی، خوش اخلاقی، فلاحی کام، سب کچھ معین اختر سے سیکھا۔ اب ان کی یادیں میرے لیے قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلاشبہ، ایسے فن کار اور سچے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔