کسی ملک کی ترقی کا انحصار اسکی زراعت پر ہوتا ہے پاکستان جیسے ملک جس میں زراعت پر آبادی کا زیادہ انحصار ہو وہاں اس پر توجہ نہ دیا جانا یقینا ًافسوس ناک ہے ہمارے ہاں اللہ پاک نے سب سہولتیں دی ہیں لیکن ہم اسے درست سمت نہ دے سکے پانی کا درست استعمال اسے ذخیرہ کرنا ہو یا فی ایکڑ پیداوار کا بڑھانا ہم نے باتوں میں سال ہا سال ضائع کر دیے لیکن نہ سٹوریج بنا ہے اور نہ ہی ہم نے کپاس گنے چاول گندم مکئی جیسی فصلات کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دی اب بھی ہم ہر چند سال بعد یہی اشیاء باہر سے منگو اتے ہیں اور بحران پر قابو پاتے ہیں اس ساری صورتحال کے حوالے سے ہم نے پنجاب کے وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی اور زرعی ماہر و بزنس مین ڈاکٹر ارشد سے کچھ بات چیت کی۔
پنجاب کے وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی ان دنوں زراعت پر توجہ دے رہے ہیں اور گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زراعت ایسا شعبہ ہے جسے ماضی میں نظر انداز کیا گیا لیکن ہماری اولین ترجیح اسی پر ہے یہ بات درست ہے کہ کسان خوشحال ہو گا تو ہی ملک میں خوشحالی آئے گی ،ہماری آبادی کا 67 فی صد زراعت سے منسلک ہے جب ان کے پاس اچھی فصل نہیں ہو گی تو وہ کیسے اپنا حال اور مستبل اچھا کریں گے کسان کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو اجو صنعت کاروں اور تاجروں کے ساتھ ہو ا اب وقت آگیا ہے کہ ہم مل جل کر کسان اور زراعت کو ترقی دلا ئیں ہماری حکومت نے کوشش کی ہے کہ بڑی فصلات جن میں گندم گنا کپاس مکئی اور چاول شامل ہیں۔
ان کی فی ایکڑ پیداوار اور مجموعی پیداوار بڑھائی جائے اس حوالے سے جو اعدادو شمار اس سال سامنے آرہے ہیں وہ خاصے حوصلہ افزا ہیں کیونکہ گندم مکئی چاول گنا سر پلس رہے ہیں کسان خوش ہے ہمارے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر میٹنگ ہوتی ہےمیں خود اضلاع میں جا کر ان کے مسائل سنتا ہوں کسان موجودہ حکومت کے اقدامات سے مطمئین ہیں اور اس سال ہماری ان چار بڑی فصلا ت سے یقیناً ملکی جی ڈی پی بڑھانے میں مدد ملی ہے ہماری کوشش ہے کہ زراعت میں ریسرچ کو فروغ دیا جائے اس طرف فوکس کر لیا ہے زرعی سٹیک ہولڈرز سے تجاویز مانگی ہیں وفاقی اور پنجاب کے بجٹ میں شامل کروائیںگے تاکہ زراعت کا پہیہ چلتا رہے۔
معروف بزنس مین اور زرعی سیکٹر سے وابستہ ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں کہ پاکستان میں جب تک زراعت میں جدت نہیں لائی جائے گی اس وقت تک ہمارا زرعی مستقبل روشن نہیں ہو سکتا دنیا جدید ہائبرڈبیج کے استعمال سے کہاں کی کہاں پہنچ گئی اور ہم پرانے روایتی بیجوں کےا ستعمال سے باہر نہیں نکلے زراعت مہنگا کاروبار بن چکا ہے جب تک ہم فی ایکڑ پیداوار نہیں بڑھائیں گے اس وقت تک نہ ہماری پیداواری لاگت بڑھے گی اور ناہی ہم ایکسپورٹ کےقابل ہو سکیں گے۔
ہمارے ہاں تو مسئلہ ہے کہ چند سال بعد کسی نہ کسی فصل کا بحران سر اٹھا لیتا ہے زرعی ملک ہونے کے با وجود گندم چینی اور کپاس درآمد کرتے ہیں یہ کتنے افسوس کی بات ہے ہمارے سٹیک ہولڈرز اور حکومت کے پالیسی سازوں کے لئے ہم نے جو کام کرنے تھے وہ نہیں کیے سیاست دانوں کو چا ہئیے تھا کہ تعلیم صحت زراعت کے لئے دس بیس سالہ پالیسیاں بناتے اور ملک کو آگے لے کر چلتے لیکن وقت ضائع کیا اور ریسرچ جیسے اہم کام کو نظر اندا زکئے رکھا اس وقت اگر ہم اپنے جیسے ممالک بنگلہ دیش ،بھارت، ویت نام پر نگاہ ڈالیں تو ان کے اعداد و شمار ہم سے کہیں بہتر ہیں وہاں فی ایکڑ پیداوار دیکھ لیں ڈالر دیکھ لیں وہ ہم سے کہیں بہتر ہیں ۔
ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں جب تک آپ ڈالر کو نیچے نہیں لائیں گے جو چاہے کر لیں مہنگائی کا طوفان کم تو دور رکے گا بھی نہیں اب بجٹ کی آمد آمد ہے اپروچ ہونی چاہئے کہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں ،سبسڈی ایمنسٹی سکیموں سے باہر نکلا جائے جب تک آپ کسی عمارت کی بنیاد رست نہیں رکھیں گے ٹیرھی عمارت بنے گی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ مارک اپ کی شرح 3 سے چار فی صد پر لائیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے جب بھی ملاقات ہوئی ہم نے باور کرایا کہ موجودہ شرح سود پر کاروبار نہیں چل سکتا ،شرح سود کو کم کرائیں۔ ڈالر کو 120 روپے پر واپس لائیں ،لاک ڈائون سے نئی سرمایہ کاری نہیں آسکی بلکہ موجودہ بھی خطرے کے نشان پر ہے لہذا بجٹ میں ریلیف دینا چاہئے انھوں نے کہا کہ بنکوں کی بجائے عوام، صنعت کارتاجر کا خیال کیا جائے اربوں روپے منافع بنکوں نے چند سال میں کمایا ہے وہ ان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے تاجر، صنعت کار ،زراعت کو یہ ملنا چاہئے تاکہ کاروبار اور روز گار بڑھے ،ٹیکسٹائل صنعت صرف حکومت کی لاڈلی نہیں ہونی چا ہئیے۔
ڈالر کو نیچے لانے کے لئے سٹیٹ بنک کو مداخلت کرنی چاہئے افغان سرحد سے ڈالر اور دیگرا شیاء کی سمگلنگ کو روکنا ہو گا حکومت تمام کام کر سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ میں جہانگیر ترین کی صلاحیتوں کا معترف ہوں انھوں نے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کی مثال قائم کی تاہم اب ہمیں ایکریچ شفٹنگ کی طرف جانا ہو گا اس سال موسم بہتر رہا جس سے گندم مکئی کی فصل بہتر رہی لیکن ہمیں کپاس کی فصل بہتر بنانے کے لئے ہائبرڈ بیج کی طرف جانا ہو گا مراعات دینا ہوں گی اس طرح سویا بین کی بوائی کرنا ہو گی کیونکہ یہ فصل برآمد کر کے بھاری زرمبادلہ کما سکتے ہیں ۔گنے کی بجائے اگر یہ فصل اگائیں تو شوگر کی بجائے ہم سویا بین فی ٹن باہر بھجوا کر 630 ڈالر کما سکتے ہیں جبکہ ہمیں 300 ڈالر فی ٹن میں گنا والی فصل لگانے کی کیا ضرورت ہے جو پانی پی جاتی ہے۔
انھوں نےشکوہ کرتے ہو ئے کہا کہ پا کستان میں بڑا مسئلہ ہمارے ریگولیٹر ز ادارے ہیں جو سہولت اور فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کی بجائے رکاوٹ ڈال کر تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ زراعت اور صنعت کو ایک سا تھ ملکر آگے لے جائیں تو پاکستان چند سال میں قرضے اتار سکتا ہے عوام خوشحال ہو سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہم بار ہا کہہ چکے اب وقت نہیں دنیا جدید ریسرچ اور ہا ئبرڈ بیج کےا ستعمال سے کہاں کی کہاں جا چکی۔
ہم پہلے سے کم پیداوار کی طرف چلے گئے ۔انھوں نے کہا کہ عالمی شہر ت یافتہ سیڈ کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کنٹریکٹ کئے جائیں دنیا کی 5 بڑی سیڈ کمپنیاں مسلسل یہاں کاشت کریں فوڈ منسٹری، کامرس منسٹری، سا ئنس و ٹیکنالوجی کو ملکر پالیسی بنا نی چاہیئے اور ان سیڈ کمپنیوں کے تجربے سے استفادہ حاصل کرے کب تک ہم ہاتھ پھیلا کر مانگتے رہیں گے اس طرح آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے مرہون منت رہیں گے، عوام پستے رہیں گے، زراعت اور صنعت کا مستقبل تاریک رہے گا ہماری اجناس تب سستی ہوں گی جب زراعت میں جدید ٹیکنالوجی ہائبرڈ بیج کا استعمال ہو گا اور ڈالر کو واپس 120 روپے کی سطح پر لایا جائے گا وگرنہ حکومت کچھ بھی کر لے مہنگائی کا طوفان ایسے ہی رہے گا غربت مزید بڑھے گی اور عوام شو ر مچاتی رہے گی۔