• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ میرا بہترین دوست تھا ،اسکول سے کالج تک ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی ،پھر دونوں کو ہی فوج میں جانے کا شوق ہوا ،دونوں نے کوشش بھی کی لیکن صرف ایک ہی کامیاب ہوسکا ،آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ کامیاب ہونے والا شخص میں نہیں بلکہ میرا دوست تھا ۔میری آنکھوں کی کمزوری میری ناکامی کا سبب بنی ،لیکن میرے دوست کی کامیابی مجھے اپنی ہی کامیابی لگتی تھی ، پھر اس کی پاسنگ آئو ٹ پریڈ ہوئی جس میں ، میں خاص طور پر مدعو تھا۔ میرا دوست امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ بن کر میرے سامنے موجود تھا ، وقت تیزی سے گزرتا رہا کچھ عرصے بعد ہی اس کی ترقی ہوئی اور وہ لیفٹیننٹ بن گیا ، اب اس کی اگلی پروموشن بطور کپتان متوقع تھی لیکن مجھے اب تک اس کی فوجی زندگی میں کوئی ایڈونچر نظر نہیں آیا تھا ۔ میں اسے کمانڈو بننے کی تلقین کیا کرتا تھا ،پھر ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس نے فوج کے اسپیشل سروس گروپ یعنی کمانڈو گروپ میں شامل ہونے کی درخواست دے دی ہے جسے قبو ل کرلیا گیا ہے ، پھر وہ خاصا مصروف ہوگیا ، رابطہ بھی کم ہوگیا تھا پھر میرا اس سے رابطہ ایک سال بعد ہوا ۔اس میں خاصی تبدیلی محسوس ہوئی ،کمانڈو تربیت کے سبب وہ خاصا سانولا ہوگیا تھا ،جبکہ چہرے کی ساخت بھی سخت ہوگئی تھی،میں اس سے بار بار یہی فرمائش کررہا تھا کہ کوئی ایسا کام کرکے دکھائو کہ مجھے یقین ہوجائے کہ تم واقعی کمانڈو ہو، وہ مجھے مسکراکر ٹالتا رہا ، رات گئے وہ مجھے گھر چھوڑنے آیا ،میرا کمرہ تیسری منزل پر واقع تھا میں نے ازراہ ِمذاق اپنے دوست کو چیلنج کیا کہ اگر وہ بغیر سیڑھیوں کے تیسری منزل پر چڑھ کر دکھائے تو مجھے یقین آجائے گا کہ وہ کمانڈو بن چکا ہے اس نے ہنستے ہوئے کہا چلو گھر جائو دیر ہوگئی ہے، میں بھی مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوا ،اور چند منٹوں میں اپنے گھر کی تیسری منزل پر پہنچا تو حیران ہوگیا کہ میرا کمانڈو دوست مجھ سے پہلے ہی تیسری منزل پر کھڑا میرا انتظار کررہا تھا ،اس نے واقعی میری فرمائش پوری کردی تھی میں بہت متاثر اور خوش ہوا اور افسردہ بھی کہ کاش میں بھی فوج میں ہوتا ۔ اس کی چھٹیوں سے واپسی سے قبل میں اسے کراچی کی معروف فوڈ اسٹریٹ پرکھانے کے لئے لے گیا ،مجھے بالکل اندازہ نہیں تھاکہ ہمارے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ ان دنوں کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے اسٹریٹ کرائم زوروں پر تھے ہم کھانا کھا کر باہر نکلے گاڑی ریورس ہی کی تھی کہ سامنے سے ایک موٹرسائیکل گزری جس پردو نوجوان بیٹھے تھے ،میرے کمانڈو دوست نے کہا عرفان تیار رہنا ، میں کچھ سمجھ نہ سکا کہ اس کا کیا مطلب ہے اور پھر وہی ہوا جس کا خطرہ میرے کمانڈو دوست نے محسوس کرلیا تھا ، دونوں موٹرسائیکل سوار پلٹ کرآئے، ہماری گاڑی کے سامنے بائیک روکی اور ایک لڑکا تیزی سے اتر کر ہماری طرف آیا ، اس نے گالم گلوچ شروع کرتے ہوئے ہم سے موبائل فون اور پرس مانگے ،اس کی پستول میرے کمانڈو دوست کے سر پر لگی ہوئی تھی ، میرا کمانڈو دوست ڈاکو سے کہہ رہا تھا صبر کر و سب کچھ دے رہا ہوں ، پھر وہ مجھ سے کہہ رہا تھا عرفان خاموشی سے جو ہے سب دے دو ان کو ،بالکل شور نہیں کرنا سب دے دو ،میں حیران تھا کہ یہ کیسا کمانڈو ہے خود بھی سب کچھ دے دیا ہے مجھ سے بھی کہہ رہا ہے دے دو ، مجھے تو دینا ہی تھا لیکن یہ تو کمانڈو ہے۔میں نے اپنا موبائل اور پرس جیسے ہی ڈاکو کے ہاتھ میں دیا، اچانک بجلی کی تیزی سے میرے کمانڈو دوست نے ڈاکو کی پستول والا ہاتھ سیکنڈز میں ایسا پلٹا کہ پستول اب میرے دوست کے ہاتھ میں تھی اور ڈاکو تکلیف سے چلا رہا تھا ، اگلے لمحے کمانڈو دوست دورازہ کھول کر نیچے اترا ،ایک ڈاکو کو لٹایا اور اگلے لمحے ایک فائر دوسرے ڈاکو کی موٹرسائیکل پر کیا ،گولی بائیک کو لگی اور ڈاکو زمین پر تھا ، کمانڈودوست نے ایک ڈاکو کو کالر سے پکڑتے ہوئے دوسرے ڈاکو کا اسلحہ بھی قابو کیا، اور ڈاکو اپنے پیروں کے نیچے دبالیا ، اتنے میں لوگ پہنچنا شروع ہوگئے جبکہ میں نے پولیس کو کال کردی تھی، ڈاکو ہم نے اس کے حوالے کئے اور وہاں سے نکل گئے ۔میرا دوست اگلے سال کپتان بن گیا ،پھر پاکستان کے شمالی علاقوں میں دشمن نے دہشت گردی شروع کی تو میرے کمانڈو دوست کی پوسٹنگ شمالی وزیرستان ہوگئی ،پھر ایک کارروائی میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے پانچ کمانڈوز پر مشتمل اس کی ٹیم کو گھیر لیا اور ہتھیار ڈالنے کی مطالبہ کیا ، لیکن میر ے اس شیر دل دوست کو شہید ہونا پسند تھا ہتھیار ڈالنا نہیں ، اس کی ٹیم نے درجنوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی جس میں اسے شہادت کا اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوا لیکن مجھے اندازہ ہے کہ میرا دوست دشمن سے کس بہادری سے لڑا ہوگا کیونکہ میں خود اس کی بہادری کا گوا ہ ہوں ۔

تازہ ترین