پاکستانی سینما پر یُوں تو ہر دور میں بے شمار یادگار سپرہٹ اُردو فلمیں ریلیز ہوئیں جو اپنی لازوال موسیقی، کردار نگاری اور ہدایت کاری کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ پنجابی فلمیں بھی اپنے دور میں بے حد پسند کی گئیں، آج ایک ایسی ہی یادگار کام یاب پنجابی فلم ’’ملنگی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔
یہ فلم 5 نومبر 1965ء کو لاہور کے کیپٹل سینما پر ریلیز ہوئی تھی، جہاں اس فلم نے مسلسل 52 ہفتے چل کر سولو گولڈن جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ کراچی جہاں اُردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس پنجابی فلم کو اس کی مسحورکن موسیقی، مکالموں، فن کاروں کی اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر بے حد پسند کیا۔ کراچی کے سابقہ لائٹ ہائوس سینما پر یہ فلم 15 ہفتے عوام کی بھرپور پذیرائی کے ساتھ 15 ہفتے چلتی رہی۔ سرکٹ کے ہفتے ملا کر اس فلم نے33 ہفتے کا بزنس کیا۔
اس سلور جوبلی اور گولڈن جوبلی فلم کے خالق چوہدری فلمز کے رُوح رواں فلم ساز چوہدری محمد اسلم تھے،جو اچھا شو کروانے کے نام سے مشہور تھے، فلمی صنعت میں ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ چوہدری صاحب بے حد ملن سار اور محبت کرنے والے انسان تھے، کسی پر ظلم اور زیادتی دیکھ کر ظالم کا منہ توڑنے میں آگے بڑھنے میں ذرا نہ سوچتے۔ ’’ملنگی‘‘ بنانے کا قصّہ بڑا دل چسپ ہے، فلم ’’ملنگی‘‘کے ہیرو اکمل ان کے بچپن کے دوست تھے، اکمل نے جب بہ طور اداکار فلموں میں کام شروع کیا، تو بہ طور ہیرو ان کی پہلی فلم ’’جبرو‘‘ نے ان کی شہرت پورے پاکستان میں پھیلا دی۔
جبرو کے بعد اکمل کے کیریئر کی سب سے اہم فلم ’’ملنگی‘‘ ثابت ہوئی۔ ’’ملنگی‘‘ پنجاب کی تاریخ کا ایک ایسا مجاہد تھا ، جس نے انگریز حکومت کی غلامی کے خلاف آواز بلند کی تھی اور ستمبر 65ء میں جب بھارت نے تمام اخلاقی اور جنگی روایات کو بالائے طاق رکھ کر رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح پاکستان پر حملہ کیا، تو سوتے ہوئے شیروں نے ان بھارتی گیدڑوں کے دانت کھٹے کر دیئے، پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر لڑ رہی تھی، ایسے میں ہمارے شاعر، موسیقار، فن کار سبھی اس جنگ میں شامل رہے، فلمی صنعت نے فوراً جنگ کے موضوع پر فلمیں بنانا شروع کر دیں، ’’ملنگی‘‘ اس سلسلے کا پہلا قدم تھی۔
فلم کی مختصر کہانی اس طرح تھی کہ یہ فلم پنجاب کے علاقے ماجھے کے رہنے والے دلیر اور جرأت مند نوجوان کے پس منظر کو بیان کرتی ہے۔ یہ کہانی 1925ء سے تعلق رکھتی ہے، جب پنجاب پر ایک طرف فرنگی کا ظلم تھا، تو دُوسری طرف اس کے حاشیہ بردار زمین دار، جاگیردار اور ہندو بنئے مسلمانوں کے دُشمن تھے۔ یہ اُس گائوں کی کہانی تھی، جہاں مسلمان، سکھ، ہندو تمام لوگ ایک ساتھ امن سے رہتے تھے۔
انگریز کو اُن کا ایک ساتھ مل کر رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اُس نے ان تینوں قوموں میں نفرت اور اختلافات پیدا کرنے کے لیے ظالم درندہ جاگیردار، سود خور ہندوئوں بنیوں کے ذریعے اُن میں پھوٹ پیدا کرنے کی سازش کی۔ ملنگی فقیر (اکمل) اور اُس کے سِکھ دوست ہرنام سنگھ (مظہر شاہ) نے اس سازش کو ناکام کرنے کے لیے سودخود ساہوکاروں اور ظالم جاگیرداروں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے تو انگریز حکومت نے انہیں اشتہاری قرار دے دیا۔ بائو اسلم (یوسف خان) اس گائوں کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان وکیل تھا، جس نے ملنگی اور ہرنام کا مقدمہ لڑنے کا تہیہ کر لیا۔
وہ اس جدوجہد آزادی میں اُس کا ایک ساتھی تھا۔ ملنگی اور ہرنام نے پہاڑوں میں پناہ لے کر انگریز سامراج، عیاش اور ظالم جاگیرداروں، سودخور بنیوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ پھر ایک روز انگریز نے اپنے مخبروں کے ذریعے رات کے اندھیرے میں جب ملنگی اور ہرنام سو رہے تھے، تو حملہ کر دیا، لیکن دونوں جوانوں نے بڑی جانبازی سے بزدلوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت پائی۔ ملنگی اور ہرنام سنگھ کی بہادری اور دوستی کی یہ لازوال داستان آج بھی پنجاب کے بیشتر حصوں میں مائیں اپنے بچوں کو سُناتی ہیں۔ گائوں کے لوگوں نے ’’ملنگی‘‘ کی قبر اور ہرنام سنگھ کی سمادھی دونوں برابر بنا کر پنجاب کے ان غیّور مجاہدوں کو آج بھی یاد رکھا ہوا ہے۔
اس فلم میں اکمل نے ملنگی کا ٹائٹل رول کیا۔ فلم میں ان کا ایک مکالمہ ’’دِنے راج فرنگی دا تے راتی راج ملنگی دا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ فلم کا دُوسرا اہم کردار مظہر شاہ کا تھا، جنہوں نے ہرنام سنگھ کا یادگار کردار کیا۔ یوسف خان کا کردار بائو اسلم کا اتنا فطری تھا کہ عام زندگی میں بھی وہ بائو اسلم مشہور ہوگئے۔ فلم کی ہیروئن شیریں تھیں، جس کا پیئر اکمل کے ساتھ تھا، جب کہ فردوس نے یوسف خان کی ہیروئن کا کردار کیا تھا۔
اداکار اجمل نے اس فلم میں بہادر سکھ سردار چرن سنگھ کا رول کیا، جو بے حد پسند کیا گیا۔ مظہر شاہ کے باپ کا کردار تھا۔ فلم کے مصنف سکیدار جن کا اصلی نام ملک رحیم خان تھا۔ انہوں نے اس فلم میں رلیا رام سودخور ہندو بنئے کے کرادر میں بڑی فطری اورعمدہ کردار نگاری کی، جسے دیکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ اداکار واقعی ہندو ہے، حالاں کہ وہ مسلمان تھا۔ دیگر اداکاروں میں منور ظریف، زلفی، رنگیلا، خلیفہ نذر، چن چن کی کامیڈی کا جواب نہیں تھا۔
ساون، طالش نے ظالم جاگیردار باپ بیٹے کے کردار بہ خوبی نبھائے۔ اسلم پرویز نے موتی ڈاکو، فضل حق نے سنگھارا ڈاکو کے کرداروں کے ساتھ پورا انصاف کیا، جب کہ اُردو فلموں کے سپرہٹ اداکار محمد علی نے اس فلم میں انگریز فرنگی کا کردار کیا، ان کے تمام مکالمے اُردو میں تھے۔ یہ کردار انہوں نے چوہدری اسلم کی دوستی میں کیا تھا، حالاں کہ وہ اُس وقت اُردو فلموں کے ٹاپ ہیرو تھے۔ گل رُخ، زینت، زمرد، چھم چھم ابو شاہ۔ امین ملک کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔
اس فلم کی موسیقی ماسٹر عبداللہ نے مرتب کی تھی۔ ایسے لازوال گیت تخلیق کیے جو آج بھی اپنی گائیکی کی بدولت لوگوں میں مقبول عام ہیں۔ فلم کا سب سے سپرہٹ نغمہ ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں تھا جس کے بول تھے ’’ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘‘ یہ خوب صورت مقبول گانا اداکارہ فردوس پر فلم بند کیا گیا۔ یہ نغمہ ایک زمانے میں ریڈیو پر فوجی بھائیوں کے پروگرام میں بے حد فرمائشی طورپر نشر کیا جاتا رہا۔ اس گانے کی نغمگی میں پنجاب کی حسین زرخیز زمین کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو فضائوں میں اس گانے کے ساتھ پھیل جاتی ہے۔ یہ گیت پنجابی شاعری اور موسیقی کا اعلیٰ سنگم ہے، فلم کے دیگر نغمات بھی لاجواب تھے۔
فلم کے فوٹو گراف مولوی غلام محمد اور محمود اے قاضی تھے، جنہوں نے اس کلاسیک بلیک اینڈ وائٹ فلم کو نہایت خوب صورت لائٹنگ سے فلمبند کیا۔ ایڈیٹر علی اور پروسیسنگ ایس ایم بشیر نے بھی اپنے اپنے شعبوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ فلم کے گانوں اور صدابندی کے فرائض اختر جیلانی اور حبیب احمد نے انجام دیئے۔ ہدایت کار رشید اختر عرف شیدا نے تمام شعبہ جات میں بھرپور توجہ دے کر ایک نہایت یادگار تاریخی کلاسیکل فلم تخلیق کی۔
چوہدری فلمز کا ادارہ آج بھی قائم ہے۔ اس وقت پورا رائل پارک فلمی دفاتر سے دیگر کاروبار میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے، مگر چوہدری فلم کے موجودہ رُوح رواں چوہدری اعجاز کامران کا دفتر آج بھی اسی طرح قائم ہے، جہاں آج بھی مردہ فلمی صنعت کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔