بھابھی، مشرقی معاشرے میں ایک معتبر رشتہ سمجھا جاتا ہے، یہ محبتوں کا حوالہ بھی ہے۔ سُسرال سے جڑے ہر رشتے کو اخلاص وفا اور خدمت کی زنجیر میں پرو کر رکھنے کی علامت بھابھی کے وجود سے وابستہ تصور کی جاتی ہے۔ خدمت، وفا اور محبت کے اس محترم رشتے کو فلم میکرز نے اپنی فلموں میں مرکزیت دی اور بھابھی کے ایثار پر مبنی بہت سی قابل ذکر اور یادگار فلمیں تخلیق کیں۔
ہماری فلمی تاریخ میں بھابھی کے نہایت موثر بامعنی اور مقصدیت سے بھرپور کردار کی عکاسی جو پہلی فلم بنائی گئی، وہ تھی ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی کی سوشل ڈراما مووی ’’چھوٹی بیگم ‘‘ جو 1956 میں جس میں پاکستانی سلور اسکرین کی عظیم ادکارہ صبیحہ خانم نے ایک ایسی حوصلہ مند، بہادر اور ثابت قدم بیوی، بہو اور بھابھی کا کردار ادا کیا کہ سسرال میں جس کا ہر رشتہ ،ماسوائے سسر کے، اس سے سخت متنفر ہوتا ہے۔
ایک ایسی بیوی جس کا شوہر اس کے بجائے ایک مغرب زدہ لڑکی کی زلف کا اسیر ہوجاتا ہے، ایک ایسی بہو کہ جس کی ساس اسے کسی طور پر بہو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں،ایک ایسی بھابھی جو ایک شرابی اور مجرے دیکھنے والے دیور اور دو آبرو باختہ آوارہ نندوں کی نفرت اور ناپسندیدگی کا نشانہ ہے، لیکن وہ اپنی حکمت، وفا،ایثار ،محبت اور جہد مسلسل سے بتدریج اس بگڑے ہوئے گھر میں انقلاب برپا کر دیتی ہے اور تمام بھٹکے ہوئے رشتوں کا قبلہ دُرست کر دینے کے بعد انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ فلم’’چھوٹی بیگم ‘‘ نے باکس آفس پر بزنس کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلے دن میں گولڈن جوبلی جیسا بڑا ہدف عبور کیا، تو سیکنڈ رن میں بھی دھواں دھار بزنس کرتے ہوئے تیزی سے نہ صرف سلور جوبلی منائی بلکہ مجموعی 38ہفتے چل کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔
1957میں بھابھی کے گرد گھومتی کہانی پر ہدایت کار شریف نیئر نے فلم ’’معصوم‘‘بنائی جس میں بھابھی کا مثالی رول یاسمین نے خُوب صورتی سے ادا کیا۔ 1960کی ریلیز ہدایت کار عطا اللہ شاہ ہاشمی نے ’’بھابھی ‘‘ کے ٹائٹل سے ایک سوشل فلم بنائی۔ نامور ہدایت کار حسن طارق نے ’’بھابھی ‘‘کی عظمت وایثار پر مشتمل کہانی پر 1967میں نہایت موثر و معیاری فلم ’’دیور بھابھی ‘‘بنائی، جس میں ’’ بھابھی ‘‘ کے کردار میں صبیحہ خانم نے لافانی پرفارمنس پیش کر کے اس کردار میں اتھارٹی کی حیثیت حاصل کی۔
یہ ایک ایسی ’’بھابھی ‘‘ کی کہانی تھی،جس کی محبت اور وفا سے اس کا گھر جنت نظیر تھا، لیکن پھر حالات کی ستم گری کے نتیجے میں ،شوہر کو سزائے موت ہو جاتی ہے، جس دیور کو وہ سگے بیٹے جیسا پیار دیتی ہے، دنیا والے اور اس دیور کی بیوی اس پیار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے شرمناک الزامات سے دیور اور بھابھی کے رشتے کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے اور پرائے رشتوں کا ظلم اور نفرت سہنے کے باوجود مسلسل قربانیاں دیتی ہوئی عظیم بھابھی موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ اس کی موت کے بعد وہ رشتے جو اس سے بدگمان تھے، نفرت کرتے تھے،انہیں اپنی زیادتیوں اور غلطیوں کا احساس ہوتا ہے، لیکن تلافی کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا،سوائے اس کے وہ اس عظیم بھابھی کی برسی نہایت عقیدت سے منائیں اور اس کی یادگار تصویر پر پھولوں کی مالائیں چڑھائیں۔ بھابھی کی عظمت ،پاکیزگی اور ایثار پر بننے والی ’’دیور بھابھی ‘‘ پاکستانی سلور اسکرین کی سب سے بڑی موثر اور جاندار فلم تھی، جس میں صبیحہ خانم، نے اپنی نیچرل المیہ اداکاری سے ہر فلم بین کو اشکبار کیا ۔
’’دیور بھابھی‘‘ نے باکس آفس پر بھرپور کام یابی حاصل کی اور گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ بھابھی کے اوصاف پر اس فلم کے لیے فیاض ہاشمی نے خُوب صورت گیت ’’تھری چیز پر بھابھی ہپ ہپ ہُرے‘‘ رقم کیا، جس کی خُوب صورت دُھن ماسٹر عنایت نے مرتب کی ۔کمال مہارت سے اسے گایا،احمد رشدی نے اور یہ پیکچرائز ہوا شہزادہ رومانس وحید مراد پر۔ 1970میں دیور بھابھی کی کام یاب ٹیم حسن طارق ،صبیحہ خانم ،رانی، وحید مراد، اور فیاض ہاشمی اور سنتوش کمار نے یکجا ہو کر ’’بھابھی ‘‘کے خوب صورت کردار سے سجی فلم ’’انجمن‘‘ کو صورت تکمیل دی۔ بھابھی کا خُوب صورت روپ اس فلم میں بھی صبیحہ خانم ہی نے اپنایا۔
’’انجمن‘‘ ایک ایسی بھابھی کی کہانی تھی کہ جس کے بیٹے جیسا دیور بادل نخواستہ ایک کوٹھے کی رقاصہ کے ساتھ اپنا وقت بتانے پر محض اس لیے مجبور ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کو اس رقاصہ سے دور رکھنا چاہتا ہے اور اپنی بھابھی کا سہاگ بچانا چاہتا ہے، لیکن سب کچھ وہ دُکھی دل سے کر رہا ہوتا ہے، کیوں کہ اسے رقاصہ سے پیار نہیں، وہ تو کسی اور کو اپنانے کا عہد کر چکا تھا۔
بھابھی اپنے دیور کی اداسی اور پریشانی کی وجہ جان لینے کے بعد خاندانی آن بان شان کو بالائے طاق رکھ کر بازار حسن کے اس کوٹھے تک جا پہنچتی ہیں کہ جہاں رقاصہ انجمن کا ڈیرہ ہوتا ہے … صبیحہ خانم، نے ایک بار پھر بھابھی کے کردار کو امر کر دیا تھا۔ فلم انجمن کے لیے بھی فیاض ہاشمی ،نے ’’بھابھی‘‘ کے لیے ایک یادگار تو صیفی دعائیہ گیت لکھا، جس کی دلنواز دُھن نثار بزمی نے مرتب کی۔
احمد رشدی نے اسے خوب صورت آہنگ دیا اور وحید مراد نے ادائوں سے اس میں رنگ بھرے۔ اس گیت کے بول تھے ’’بھابھی میری بھابھی، تم جیو ہزاروں سال۔ ‘‘انجمن 1970کی سب سے بڑی اردو ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اور فلم نے پاکستان کی پہلی رنگین پلاٹینم جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ انجمن سے قبل 1969میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار ایس اے حافظ کی ’’بھابھی‘‘ کے اہم کردار پر مبنی فلم ’’میری بھابھی ‘‘ کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے، جس میں ’’بھابھی‘‘کا موثر اور یادگار کردار پاکستانی اسکرین کی سب سے پروقار فن کارہ ’’نیئر سلطانہ‘‘ نے کمال اور خوب صورتی سے ادا کیا، لیکن یہ فلم باکس آفس پر عوامی توجہ سے محروم رہی۔
1974میں ہدایت کار نذر شباب نے’’شمع‘‘ کے عنوان سے جو خُوب صورت سوشل فلم بنائی۔ اس میں دیبا خانم نے شمع کے ٹائٹل رول میں ایک بردبار، معاملہ فہم اور ذمہ دار بھابھی کا رول بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا، 1975کی ریلیز ہدایت کار وزیر علی کی ’’معصوم‘‘ میں ’بھابھی ‘‘ کا اہم رول بابرہ شریف کو ملا۔ معصوم وزیر علی ہی کی ماضی کا کام یاب فلم ’’میرا کیا قصور ‘‘ کا ری میک تھی، جس میں بھابھی کا شان دار کردار ’’شمیم آرا‘‘ نے نہایت کام یابی سے نبھایا تھا۔ بابرہ شریف نے بھی اس کردار کی ادائیگی جانفشانی سے کی، لیکن ’’معصوم ‘‘ کو عوامی پسندیدگی نہ مل سکی۔ تاہم دیور اور بھابھی کے خوبصورت تعلق کو بیان کرتا فلم کا ایک گیت ’’بھابھی میں تجھ پر قربان‘‘ جسے مالا اور مہناز نے گایا تھا۔ بےحد پاپولر ہوا۔
ہدایت کار نگیلا نے ’’بھابھی‘‘ کی عظمت و ایثار کو پنجابی زبان میں ایک اعلیٰ معیاری اور عمدہ فلم ’’سونا چاندی‘‘ کے عنوان سے بنائی، جو حسن طارق کی ’’دیور بھابھی ‘‘ سے بہت قریب تر کہانی پر مبنی تھی۔ سنگیتا نے صبیحہ خانم کا… رانی نے …رانی ہی کا اور علی اعجاز نے وحید مراد والا رول ’’سونا چاندی‘‘میں ادا کیا ۔اس فلم کو پنجاب سرکٹ میں غیر معمولی کام یابی ملی۔ فلم نے مختلف شعبوں میں متعدد نگار ایوارڈز بھی حاصل کر کے سال کی نمایاں پنجابی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ہدایت کار اقبال کاشمیری نے 1996میں فلم ’’میرا کیا قصور‘‘ اور ’’میری بھابھی‘‘ کی کہانیوں کا بلینڈ پنجابی زبان میں ’’بھابھی دیاں چوڑیاں‘‘ کے ٹائٹل سے فلمایا، جس میں’’ مثالی بھابھی‘‘ کا رول سلمیٰ آغا نے ادا کیا، اس فلم کو بھی باکس آفس پر مناسب کام یابی ملی۔