اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کے خلاف ایل این جی ریفرنس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر کو آج ہی طلب کر لیا۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد اعظم خان نے ریفرنس کی سماعت کی ۔
شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے حاضری لگوائی۔
شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے گواہ عبدالرشید جوکھیو پر جرح مکمل کر لی ہے۔
جس کے بعد نیب کے گواہ، وزارتِ توانائی و پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل پر شریک ملزمان کے وکیل نے جرح کی۔
ملزمان حسین داؤد اور عبدالصمد داؤد کے وکیل نے بیرسٹر ظفر اللّٰہ کی جرح پر انحصار کیا۔
شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے نیب دستاویز کی عدم فراہمی پر اعتراض کیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس میں جن دستاویز پر اعتراض کیا گیا تھا وہ دوبارہ فراہم کر دی گئی ہیں۔
احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ مجھے بھی یاد ہے کہ نیب نے متعلقہ دستاویز ملزم کے وکیل کو فراہم کی تھی۔
شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے ہمیں متعلقہ دستاویز نہیں دی، ہمیں چند صفحے ضرور ملے لیکن مکمل دستاویز نہیں ملی۔
بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے کہا کہ ہمارا حق تھا کہ مکمل ریفرنس دیا جائے لیکن اب بھی کاپیاں مکمل نہیں، جب بھی بیٹھ کر پڑھنے لگتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ فلاں دستاویز ہے ہی نہیں۔
جج اعظم خان نے کہا کہ اتنی فوٹو کاپیاں کروا کر ہمارا بجٹ بھی آؤٹ ہو جاتا ہے۔
بیرسٹر ظفر اللّٰہ نے استدعا کی کہ فوٹو کاپی کے پیسے ہم سے لے لیں لیکن ہمیں کاپیاں مکمل دیں۔
عدالت نے نیب کو آج بیرسٹر ظفر اللّٰہ کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل کا تقاضہ ہے کہ وکیلِ صفائی کے پاس مکمل دستاویزات ہوں اور وہ انہیں پڑھ کر آئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس کی نقول تفتیشی افسر نے تیار کروائیں، انہیں بلا کر پوچھ لیں۔
احتساب عدالت کے جج محمد اعظم خان نے کہا کہ اگر یہ غلطی ہوئی ہے تو تفتیشی افسر کی ہے، عدالت نے تفتیشی افسر کو آج ہی طلب کر لیا۔
کیس میں گواہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر ریگولیٹری افیئرز سید فصیح الدین فواد نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا۔
گواہ نے عدالت کو بتایا کہ ستمبر 2019ء میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے آفس میں تفتیشی افسر ملک زبیر احمد کے سامنے پیش ہوا، مجھ سے کمپنی کی فنانشل پوزیشن اور اسٹیٹس کے بارے میں پوچھا گیا، میں نے ایک چارٹ پیش کیا جس میں 2009ء سے 2017ء تک کمپنی کی فنانشل اسٹیٹمنٹ تھی۔
گواہ نے اپنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں یہ بھی کہا کہ چارٹ میں ریونیو، اخراجات اور منافع کی تفصیلات شامل تھیں، چارٹ کے مطابق کمپنی نے اس عرصے کے دوران 120 اور 177 ارب تک ریونیو حاصل کیا۔