اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج ،شوکت عزیز صدیقی کی انہیں جج کے عہدہ سے فارغ کرنے سے متعلق جاری کئے گئے وفاقی وزارت قانون وانصاف کے 11اکتوبر2018 کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت 10 جون تک ملتوی کردی
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نےکیس کی سماعت کی تودرخواست گزار،شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے حامد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل دینے سے پہلے اپنی معروضات بتا دیں تاکہ کیس چلانے میں آسانی ہو
جس پر وکیل حامد خان نے موقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کیخلاف انکوائری کرنے کا اختیارتو رکھتی ہے لیکن کسی جج کو فارغ نہیں کر سکتی، نوٹسز ظاہر کرتے ہیں کہ میرے موکل کوبعض حلقوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیاتھا،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے ؟یا اس کی کارروائی کسی دبائو کا نتیجہ تھی
جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ تمام حقائق یہ چیز ظاہر کردیں گے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کس انداز میں چل رہی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تعجب ہے کہ آپ کے موکل کو غصہ کسی پر تھا اور انہوں نے تضحیک عدلیہ کی ہے،انہوں نے اپنے ہی ادارے کی عوامی مقام پر توہین کردی،انہیں اپنے ادارے کے تحفظ کیلئے کام کرنا چاہئے تھا،ان اداروں کا سوچیں جو عدلیہ کے تحفظ کیلئےکام کرتے ہیں، جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ بارایسوسی ایشنیں بھی عدلیہ کی حفاظت کیلئےکام کرتی ہیں، جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ معذرت کیساتھ ان کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت وہ کام کرتی ہیں۔
شوکت عزیزصدیقی نے کمرہ عدالت میں اپنی نشست پر کھڑے ہو کرکہا کہ رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے میرے خلاف درخواست دی تھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو درخواست گزار شوکت صدیقی دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہاکہ میں حلفا ًکہتا ہوں میری تقریر کرنے کا مقصد دبائو کو کم کرنا تھا، بدقسمتی سے میں دسمبر 2015 سے شدید دبائومیں ہوں،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ مجھے عدلیہ سے باہر نکالنا چاہتے تھے،جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں مزید بولنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہاکہ ہم آپکی تقریر نہیں سننا چاہتے، ایک تقریر آپ نے پہلے بھی کی تھی،اب آپ نے توججوں کے نام گنوانا شروع کر دیئے ہیں ، بعد ازاں فاضل عدالت نے سماعت 10 جون تک ملتوی کردی ۔