پاکستان میں اس وقت معاشی اصلاحات اور ترقی کی جس قدر ضرورت ہے اس قدر ضرورت پہلے کبھی نہ تھی دنیا بھر میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے طلب اور رسد بڑھ رہی ہے خاص طور پر کرنسی کی کم ہوتی قدر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے بہت بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے پاکستان میں اس وقت حکومت کی پوری کوشش ہے کہ تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے بے روز گاری میں کمی آئے مہنگائی کم ہو سکے ڈالر کی قدر کم ہو اور روپے کی قدر زیادہ ہویہی وہ راستے ہیں جس پر چل کرپاکستان میں ترقی اور خوشحالی آسکتی ہے اور کاروبار پروان چڑھ سکتے ہیں۔ اس سے زرمبادلہ کو بہتر بنانا اور منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کو روکنے میں پاکستان کی ایکسچینج ایسوسی ایشن بھر پور کام کر رہی ہے۔
اب بجٹ آنے والا ہے اس میں انکی طرف سے کیا تجاویز سا منے لائی گئیں اور گزشتہ دو سال میں کافی اقدامات اٹھائے گئے جس سے نہ صرف زرمبادلہ پاکستان لانے بلکہ منی لانڈرنگ کے خاتمے ڈالراور روپے کی قدر میں توازن قائم کرنے کے لئے بھر پور کام کیا گیا ہے ،
اس ساری صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی صدر ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان شیخ علائوالدین اور ایگزیکٹو ممبر اور عصمت بٹ سے جن کی ملک میں فارن ایکسچینج کے حوالے سے گراں قدر خامات ہیں کوئی بھی حکومت ہو یہ ان کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں اور حال ہی میں متعدد تجاویز گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر کو بھجواچکے ہیں
شیخ علائو الدین کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت حکومت اور سٹیٹ بنک کو ہمارا ساتھ دینا ہو گا اور تاجروں اور صنعت کاروں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ کاروباری حالات سیاسی عدم استحکام ،کرونا اور عالمی معاملات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں دنیا نے تواپنے مالی معاملات کو بہتر بنا لیا ہے لیکن پاکستان کو اشد ضرورت ہے کہ مالی معاملات کو ایک دائرہ کار میں لائے اور جو منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس سے نجات ملے ،خاص طور پر حکومت نے فیٹیف قوانین کو قانونی شکل دینے ،روپے کو مستحکم کرنے اور زرمبادلہ کوبڑھانے کے لئے ہم سے جو تعاون مانگا ہم نے سو فی صد فراہم کیا اور آج اسی وجہ سے نہ صرف فیٹیف میں کامیابی ملی بلکہ روپے بھی مستحکم دکھائی دے رہا ہے۔
انہوں نے بجٹ کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ افغان ٹریڈ اور گولڈ جیولری کی ایکسپورٹ کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ سمگلنگ کا قلع قمع ہو سکے،جس سے پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کر سکے گی۔ پشاور سے افغانستان کو امریکی ڈالر کی غیر قانونی ترسیل اور ،سمگلنگ کا سد باب کیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کے اس بر وقت اقدام سے غیر قانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کا خاتمہ ہو سکے گا اور سٹیٹ بنک کے احکامات کے مطابق کرنسی ایکسچینج کی حوصلہ افزائی ہو گی اور اس کا براہ راست فائدہ غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر کو بڑھانے کا باعث بنے گا ایکسچینج سیکٹر کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ دیا جائے اس سیکٹر کو گورنر سٹیٹ بنک کے و یژ ن کے مطابق ڈیجیٹل سروسز مہیا کرنے میں ایکسچینج سیکٹر کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ڈیجیٹل پاکستان کا حکومتی مشن تیزی سے آگے بڑھ سکے۔
عصمت بٹ کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کی خدمات قابل ستائش ہیں جنہوں نے اس کٹھن منزل کو پانے میںECAP کا بھرپور ساتھ دیا۔ LOOMIS کی کامیاب سروس اور ان کے غیرملکی عملے کی خدمات کا ذکر نہ کرنا مناسب نہیں ہوگا جس نے ایکسپورٹ کرنسی کو نہ صرف آسان بنا دیا بلکہ پرانے اور روایتی طریقہ کار کو چھوڑ کر نسبتاً محفوظ اور رسک فری چینل فراہم کیا جس نے ایکسچینج سیکٹر کی کارکردگی کو تاریخی کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے۔ اور اس بے مثال کامیابی کو نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ ستیٹ بنک آف پاکستان اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے پلیٹ فارم سے بھی سراہا جارہا ہے۔
اس ساری کامیابی میں کسٹمز حکام کا بالعموم اور کلکٹر آف کسٹمز علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ لاہور کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے جن کی ذاتی کاوشوں اور رہنمائی سے ایکسچینج سیکٹر کو Weboc سسٹم کی سہولت مہیا کروائی۔ اس جدید سسٹم کی بدولت کرنسی ایکسپورٹ کا کسٹمز پروسیس انتہائی برق رفتاری سے انجام پاتا ہے۔ ایکسچینج سیکٹر کو اس جدید Weboc سسٹم میں شامل کرنے سے ممبرایکسچینج کمپنی کو بہت سہولت حاصل ہو گئی ہے اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
شیخ علائو الدین کا کہنا ہے کہ یہاںپر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے بھرپور تعاون کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ کووڈ 19جیسے مشکل حالات میں ایکسچینج سیکٹر کو Consignment Basis پر کرنسی ایکسپورٹ کرنے کی فوری اجازت دی بلکہ بعد میں آنے والے دنوں میں جب بھی اس سیکٹر کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے کسی بھی انتظامی سپورٹ یا تبدیلی کی ضرورت درپیش آئی تو ایس بی پی کے متعلقہ شعبے بشمول ای پی ڈی ،ایف ای او ڈی وغیرہ نے انتہائی خندہ پیشانی سے مطلوبہ مسائل کا حل بے حد تیزی سے دیا بلکہ ان شعبہ جات کے ڈائریکٹرز نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئےای کیپ کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کا فوری حل مہیا کیا۔
اس سلسلے میں ایس بی پی کے لاہور ایئر پورٹ پر تعینات عملے کی سپورٹ بھی قابل ستائش ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے کرنسی ایکسپورٹ کرنے کے مقرر شد ہ مراحل بطریق احسن انجام دیئے بلکہ برق رفتاری سے اس عمل کو مکمل کر کے ای کیپ ممبران کیلئے آسانی پیدا کی جس سے ایکسپورٹ کو تیزی سے بڑھانے کے اہداف پورے ہو سکے۔
عصمت بٹ کہتے ہیں کہ ایکسچینج کمپنیز کی انفرادی اور ای کیپ کی اجتماعی کوششیں رنگ لائی ہیں اور کووڈ 19 جیسے نامساعد حالات، لاک ڈاؤن اور دیگر مشکلات کے باوجود اس سیکٹر کی کارکردگی Home Remittance کی ادائیگی بروقت یقینی بنائی گئی حتیٰ کہ عید الفطر سے ایک دن پہلے تک ایکسچینج کمپنیز نے اپنی برانچیں کھول کر ان تمام پاکستانیوں کو Remittance کی ادائیگی کی تاکہ کوئی بھی شہری عید کی خوشیاں منانے سے محروم نہ رہ جائے اور اپنے پیاروں کی طرف سے بھیجی گئی رقوم سے اپنی اور خاندان کی ضروریات پوری کر سکیں۔
شیخ علائوالدین کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات باعث طمانیت ہے کہ ان دگرگوں حالات میں جبکہ بین الاقوامی پروازوں پر پابندی ہے اور بیرون ملک سفر کرنا تقریباً بند ہو چکا ہے۔ اس سیکٹر نے کرنسی کی ایکسپورٹ کے ریکارڈ اہداف حاصل کئے اور مئی 2020سے لے کر 30اپریل 2021تک کے قلیل عرصے میں ملکی تاریخ کی ریکارڈ کرنسی ایکسپورٹ کی جو کہ پچھلے تمام اعداد و شمار سے زیادہ ہے اور جس کی وجہ سے3.1بلین امریکی ڈالرز کا ملکی ذخائر میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ Home Remittance کی مد میں بھی تقریباً 2 بلین امریکی ڈالرز کا حصہ ڈالا ۔ اس طرح سے اس سیکٹر نے ملکی برآمدات اس میں تقریباً%13اور Remittance کی مد میں 9 فیصدکا اضافہ کیا جو کہ خود ایک اعزاز ہے۔ یہ سیکٹر دوسری انڈسٹریز کے شانہ بشانہ برآمدات، Home Remittance بڑھانے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔
ایکسچینج سیکٹر کی اپنے صدر کی پراعتماد قیادت اور صلاحیتوں کی بدولت ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس سیکٹر کے ذریعے ملکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کیا جائے۔ ایس بی پی سے لائسنس یافتہ کمپنیز کے نیٹ ورک اور کاروبار کو وسعت دی جائے تاکہ غیر قانونی طریقے سے کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کا قلع قمع ہو سکے۔
بیرون ملک سے پاکستانی اپنے گھر والوں کو قانونی طریقے سے جن میں لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیز شامل ہیں کے ذریعے سے ہی رقوم بھجوائیں اور وصول کریں۔ کرنسی کی تبدیلی کا کام بھی انہی قانونی چینل کے ذریعے ہی ہو ۔ پشاور سے کرنسی کی غیرقانونی سمگلنگ کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ اداروں سے بھی گزارش ہے کہ افغان ٹریڈ میں موجود بے ضابطگیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
اس کے علاوہ زیورات کی ایکسپورٹ کی آڑ میں کرنسی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والوں کو بھی سختی سے روکا جائے تاکہ کرنسی کا مکمل کام قانونی ہاتھوں میں رہے جس سے نہ صرف عام صارف کو سہولت ملے گی بلکہ ناجائز کام کرنے والوں کے ہاتھوں زیادہ/کم ریٹ لگانے کی وجہ سے ہر طرح کے نقصان سے بچ سکیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ تمام کاروبار قانونی ضابطوں کے تحت ایس بی پی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوگا۔
جس کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کو ہو گا کیونکہ لائسنس یافتہ کمپنیز کے ذریعے کام کرنے اور کرنسی ایکسپورٹ کرنے سے سو فیصد ایکسپورٹ کی سیٹلمنٹ پاکستانی بینکوں کے ذریعے ہی سے ممکن ہوگی جس کا بالآخر فائدہ ملکی خزانے کو ہو گا، ملکی معیشت کو بے پناہ سہارا ملے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگا اور ہمارا ملک ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکے گا۔