پولیس کا محکمہ ایسا ہے کہ اگر وہ سچائی اور ایمان داری سے کام کرے، تو برسوں کا کام مہینوں اور مہینوں کا کام چند دنوں میں کرسکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پولیس کچھ کیسز میں سُستی سے کام لیتی ہے،تو ملزمان کو پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ درحقیقت پولیس کلچر اوپر سے حکم کا منتظر رہتا ہے۔ اگر پولیس کے محکمے میں سچے اور ایمان دار افسر بھرتی کیے جائیں، تو یہ ادارہ مثالی بن سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں ہم نے ایسے ہی سچے، کھرے اور ایمان دار ایس ایس پی انویسٹی گیشن، سائوتھ عمران مرزا سے ایک ملاقات کی۔ عمران مرزا پولیس کے محکمے میں فرض شناس اور ایمان دار پولیس افسر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، لیکن وہ کراچی کے عوام سے بہت پیار کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انہوں نے کلفٹن میں12 کلو سونے کی غیر معمولی چوری کا چند گھنٹوں میں سراغ لگا لیا۔ ایس ایس پی عمران مرزا نہایت شفیق اور شریف النفس انسان ہیں، اپنے کام کے کھرے اور بے باک ہیں۔ انہوں نے نہایت برق رفتاری سے اپنی ٹیم کی مدد سے سونے کے چوروں تک رسائی حاصل کی۔ واضح رہے کہ چوری میں اپنی ہی دکان کا مالک ہی ملوث نکلا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی وارداتیں ہیں، جن تک انہوں نے برق رفتاری سے رسائی حاصل کی اور ملزمان کو بے نقاب کیا۔
ان کی شخصیت میں دکھاوا کم ہے، کیوں کہ وہ مسلسل کام اور اعلیٰ کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں۔ دوران گفتگو ایس ایس پی کلفٹن عمران مرزا نے ہمارے سوالات کے جوابات بہت شائستگی اور دھیمے انداز میں دیے۔ ہمیں محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم کسی قابل، ذہین اور باکمال پولیس افسر سے محو گفتگو ہیں۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز کلفٹن میں ہونے والی سونے کی غیر معمولی چوری کی واردات سے متعلق کیا۔
س: کراچی کے علاقے کلفٹن میں12 کلو سونے کی چوری کے ملزمان کو چند گھنٹوں میں کیسے گرفتار کیا؟
عمران مرزا: یہ بہت دل چسپ اور لمبی کہانی ہے۔ کلفٹن تھانے میں تقریباً سوا دو بجے سونے کی چوری کی رپورٹ درج ہوئی تھی۔ 10 سے 12کلو سونا چوری ہوا تھا۔ ہم نے اس سے قبل سونے کے بارے میں تولہ تو سُنا تھا، لیکن کلو گرام کا سن کر سب حیران رہ گئے۔ بہرحال، ہم نے تحقیقات شروع کی۔ جائے وقوعہ کا معائنہ کیا، تو ابتدا میں ہمیں کچھ شواہد ملے، خوش قسمتی سے جس دُکان میں چوری ہوئی تھی۔ اس کے کمرے کی ریکارڈنگ مل گئی۔ ریکارڈنگ حاصل کرنے کے بعد ہم نے باقاعدہ تحقیقات شروع کردی۔ کچھ متعلقہ لوگوں سے معلومات حاصل کیں۔
شاپ کا بھی تفصیلی دورہ کیا، دکان کے مالک محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد آصف بھی ان کے ساتھ کام 10%پر کام کرتا تھا۔ تمام سونا محمد یوسف کی ملکیت تھا۔ ہم نے دکان میں کام کرنے والوں سے معلومات حاصل کیں۔ ان کے بیانات کی روشنی میں کچھ چیزیں سامنے آئیں۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ اتنا کچھ آسانی سے ہو نہیں سکتا۔
ہم نے کچھ چوکیداروں کو بھی گرفتار کیا۔ دُکان کے تالے توڑنا یا کاٹنا آسان نہیں تھا۔ گلف مارکیٹ، کلفٹن کے پررونق علاقے میں ہے۔ سی وی آر کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ دُکان کے مالک نے جب دُکان کھولی، تو کیمروں کو چھوا اور کچھ دیر کے لیے کیمرے کی آنکھ بند کردی اور بڑی صفائی سے سونا کیمروں کی رینج سے دور کردیا۔ اس کے بعد کی ریکارڈنگ نہیں تھی۔
بعدازاں دوسرے دن کی ریکارڈنگ شروع ہوجاتی ہے۔ محمد آصف کا موبائل فون آٹھ دس گھنٹے بند ہوتا ہے۔ اور پھر دوسرے دن آن ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کا نمبر کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کے بیانات اور CDR سنیں تو ہمیں آصف پر شک ہوا، تو ہم نے آصف کو بلایا۔ اس سے پوچھا کہ دُکان کے کیمرے بند کیوں ہوئے تھے۔ اس نے مختلف بہانے بنائے۔
اس نے کہاکہ میں کیمرے صاف کر رہا تھا۔ پولیس نے پہلے اس سے پیار سے پوچھا، لیکن وہ نہیں مانا، تو ہم نے کارروائی شروع کی۔ تو اس نے بتایا کہ ہم تین بھائی ہیں اور تینوں سنارے کا کام کرتے ہیں۔ آصف اٹھارہ سال سے اسی دکان پر کام کر رہا تھا۔ آصف کی دو بیویاں ہیں۔ اس نے 40 لاکھ کا ایک فلیٹ لیا۔ وہ نقصان میں چلا گیا۔ PSL میں جوا کھیلا تو 40 لاکھ ہار گیا۔ اس پر80 لاکھ کا بوجھ تھا۔
لہٰذا اسی وجہ سے اس نے سونا چوری کی تمام منصوبہ بندی کی۔ اس کا ایک دوست وسیم پرائیویٹ جاب کرتا ہے۔ وہ ڈیفنس فیز ٹو کا رہائشی تھا۔ آصف نے وسیم کو کہا کہ میں سونا امانت کے طور پر آپ کے پاس رکھوں گا۔ بعد میں اٹھا لوں گا۔ جب مسئلہ حل ہوجائے گا، تو میں 10% تم کو بھی دوں گا۔ اس نے دکان سے آرٹیفشل سونا الگ کیا اور اصلی سونا الگ کیا۔ اس نے ماجد نامی شخص پانچ ہزار روپے کرائے پر گرینڈر حاصل کیا، جس سے تالے کاٹے۔
وسیم کے گھر پر تین کلو سونا رکھوایا۔ وسیم بعدازاں وہ سونا اپنے دفتر لے گیا، جہاں وہ ملازمت کرتا تھا۔ اس کے بعد آصف نے کٹے ہوئے تالے صبح سویرے دُکان پر رکھ دیے۔ 11 بجے صبح جب دُکان کھولی تو اسٹاف نے تالے ٹوٹے ہوئے دیکھے۔ پھر اس نے سارا ڈراما رچایا۔ آصف کو توقع نہیں تھی کہ اس کا بھائی چوری کی ایف ائی آر درج کروائے گا۔ ایسا اس نے مارکیٹ کے لوگوں کے پریشر کی وجہ سے کیا۔ ہم نے سونے کی تلاش میں وسیم کے دفتر چھاپہ مارا، تو وہ نہیں ملا۔ بعد میں ہم نے تمام سونا برآمد کرلیا۔ اب وہ سب جیل میں ہیں۔
س:آپ کا تعلق پنجاب پولیس سے بھی رہا، اب آپ کراچی میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کیا فرق محسوس کیا، سندھ اور پنجاب پولیس کے کلچر میں؟
عمران مرزا: کراچی کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ بہت پڑھے لکھے سمجھ دار ہیں۔ مجھے کراچی میں ملازمت کرتے ہوئے ڈھائی تین سال ہو گئے ہیں۔ اے ایس پی کلفٹن بھی رہا ہوں۔
اب ایس ایس پی انویسٹی گیشن ہوں۔ یہ بہت زیادہ ڈیمانڈنگ جاب ہے۔ بہت زیادہ بلکہ دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔ فائل ورک بھی بہت ہوتا ہے۔ میں اپنے باسز کی توقعات سے بڑھ کر کام کرتا ہوں۔ الحمدللہ اپنا کام پوری ایمان داری سے کرتا ہوں۔
س:گھروں میں چوری کی واردات کے کیسز بہت سامنے آرہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
عمران مرزا: پچھلے دنوں ایک ایسا گینگ بھی سامنے آیا تھا جو روزانہ کی بنیاد پر گھروں میں چوری کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے علاقے میں کہرام مچ گیا تھا۔ ہم نے ان لوگوں کو پکڑا اور کچھ ریکوریز بھی کروائیں۔ الحمدللہ کراچی میں کرائم بہت کنٹرول میں ہے۔ جس عہدے پر میں کام کر رہا ہوں، اس میں آئی اوز کو موٹیویٹ کرنا پڑتا ہے۔
س:اس وقت کراچی میں جرائم کی کیا صورت حال ہے، کیا پہلے سے حالات بہتر ہوئے ہیں؟
عمران مرزا: اب کراچی کی صورتِ حال بہت زیادہ اچھی ہو گئی ہے۔ پانچ سال قبل اور آج کے کراچی کے حالات کچھ اور ہیں۔ کراچی کا شمار دُنیا کے پرامن شہروں میں ہونے لگا ہے۔
س:موٹر سائیکل اور گاڑی چوری کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
عمران مرزا: کراچی ایک انٹرنیشنل شہر ہے۔ اب اس طرح کے جرائم نہیں ہوئے، جس طرح ماضی میں ہوتے تھے، جہاں تک گاڑیوں کی چوریوں کا سوال ہے، تو اس سلسلے میں اتنا عرض کردو کہ اس میں ہمارے شہریوں کا بھی تھوڑا قصور ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو صحیح طریقے سے لاک نہیں کرتے،جس کی وجہ سے ان کی گاڑیاں آسانی سے کوئی بھی چوری کر لیتا ہے اور رپورٹ کروانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
س: سوشل میڈیا کی وجہ سے ملزمان تک پہنچنے میں کتنی آسانی ہوتی ہے؟
عمران مرزا: سوشل میڈیا اور دوسرے برقی آلات کی وجہ سے ملزمان تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی واردات بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ میڈیا کی وجہ سے پولیس کو کارروائی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ میری پوری ٹیم میڈیا رپورٹس کو بھی دیکھتی ہے۔ بہت سارے ایسے کیسز ہیں، جن تک ہم چند دنوں میں پہنچے اور ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے تک پہنچایا۔ عوام اور پولیس کا ساتھ ضروری ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
پولیس کلچر کو دُرست کرنے میں شہری اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اب دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے اور وہ ملکی حالات سے باخبر رہتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پولیس کی کارکردگی بھی سامنے آتی ہے اور ملزمان کی وارداتیں بھی جلد منظر عام پر آجاتی ہیں۔ اب کوئی جُرم چھپتا نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی چُھپا سکتا ہے۔ ہماری کوششوں سے کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ اور دہشت گردی کی روک تھام میں پولیس نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور کرتی رہے گی۔ اس سلسلے میں ہمارے محکمے کے بے شمار اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔
س: کیا کلفٹن میں کام کرنا زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے؟
عمران مرزا: ہمارے اردگرد ہائی پروفائل کے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ اس لیے کام اور بڑھ جاتا ہے۔
س:کلفٹن کے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے ذریعے بہت زیادہ چوریاں ہو رہی ہیں، اس کی روک تھام کس طرح ہوگی؟
عمران مرزا: میں کلفٹن میں رہنے والے معزز شہریوں سے درخواست کروں گا کہ جب بھی گھروں میں کام کرنے کے لیے ’’ماسی‘‘ رکھیں، تو اسے متعلقہ تھانے میں لازمی رجسٹرڈ کروائیں۔ اس کے لیے ہماری ایک ایپ بھی بنی ہوئی ہے۔ اس میں بھی رجسٹر کروائیں۔ اُسے ملازمت دیتے وقت تمام کوائف حاصل کرلیں۔ اس کا شناختی کارڈ، تصاویر اور اس کے ضمانتی کے شناختی کارڈ بھی لیں۔
ایک کاپی تھانے میں جمع کروائیں اور ایک کاپی اپنے پاس رکھیں۔ تاکہ گھروں میں ماسیوں کی چوریوں پر قابو پایا جا سکے۔ ماسی کے علاوہ جو بھی ملازم رکھیں۔ اُسے پولیس میں لازمی رجسٹر کروائیں۔ جب بھی کوئی غیر معمولی حرکات دیکھیں تو فوراً 15 پر اطلاع دیں۔ اس پر پیسے بھی نہیں لگتے۔15 پر مفت کال کریں۔ اسی وقت پولیس آپ کی مدد کو پہنچ جاتی ہے۔ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں چوری کی بڑی وارداتوں میں ملوث پائی جاتی ہیں۔
س:کراچی کےاسٹریٹ کرائم پر کیسے قابو پایا جائے؟
عمران مرزا: اسٹریٹ کرائم میں پہلے سے بہت بہتری آئی ہے۔ شہری زیادہ سے زیادہ اسٹریٹ کرائم کی رپورٹ کرائیں اور بعد میں اس پر کارروائی سے متعلق پولیس سے لازمی معلومات حاصل کریں۔
ہم جب ملزمان کو اسٹریٹ کرائم میں پکڑتے ہیں، تو گواہی کے لیے کورٹ میں کوئی حاضر نہیں ہوتا، اس طرح ملزمان ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور پھر وارداتیں شروع کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کو پولیس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اکثر شہری اپنے موبائل فونز کے چھننے کی رپورٹ ہی نہیں کرواتے۔