بھٹ شاہ ضلع مٹیاری کا چھوٹا سا قصبہ ہے جو کراچی سے 208کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ ماڈرن سائنسزبھٹ شاہ کیمپس ایک میوزیم اور عالی شان ثقافتی مرکز موجود ہے۔ ثقافتی مرکز 1954 میں تعمیر ہوا تھا جس کا افتتاح15؍اکتوبر 1954 کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ عبدالستار پیرزادہ نے کیاتھا۔ صوفی بزرگ ،حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری سات برس بھٹ شاہ میں ہی گزارے۔ ان کا مزارمبارک حیدرآباد سے 32میل کے فاصلے پرواقع ہے۔ یہ مقبرہ جو1167ھ میں مکمل ہوا کلہوڑا دور کے فن تعمیر کا نادر شاہ کارہے۔ پورےمقبرہ میں کاشی گری کا کام کیا گیا ہے۔ ُاس دور کے نامور معمار عیدن نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
مقبرہ کے دالان میں داخل ہونے کے لئے پانچ محراب نما در ہیں، جن کی کمانیں اندر اور باہر مختلف رنگوں کی کاشی گری کی پھول دار اینٹوں کی بنی ہوئی ہیں۔ دالان میں سنگ مر مر کے تین ستون ہیں، جن کی جنوبی سمت دو دروازے ہیں، جن پر اسی قسم کے نقش و نگار ہیں۔ چھت میں قندیلیں آویزاں ہیں، دالان کا فرش سنگ مرمر کا ہے۔ کبوتروں کے لئے دیوار میں جالی کا پنجرا نصب ہے۔ مشرقی دیوار کا نچلا حصہ بھورا ہے اور شمال کا نیلا ہے۔ دالان میں مقبرے کے دروازے کے دونوں جانب گھڑیال آویزاں ہیں۔مقبرہ کا دروازہ صندل کی لکڑی کا بنا ہوا ہے۔
جس پر چاندی کی چادر چڑھی ہوئی ہے۔ روضے میں داخل ہوتے ہی سامنے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کی جھلک، لکڑی کی حسین جالی کے اندر نظر آتی ہے۔ مقبرے کی چار دیواری کے باہر ایک وسیع ایوان ہے۔ روضہ کی چار دیواری کے اندر جنوب مشرقی کونے میں سید لطیف علی شاہ اور سید علی بخش شاہ عرف الن سائیں کے مزارات ہیں۔ شاہ لطیف کے مزار کی دائیں جانب ان کے چچازاد بھائی سید جمال شاہ کا مزار ہے۔ مقبرہ کا دوسرا دروازہ شمال کی دیوار میں ہے، جس سے آدمی دالان کے مغربی حصے میں داخل ہوسکتا ہے۔ چند قدم آگے شاہ عبداللطیف کے والد شاہ حبیب کا مقبرہ ہے۔
درگاہ کے مشرق میں کاشی کی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ایک عظیم الشان مسجد ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھٹ شاہ آنے کے بعد سب سے پہلے یہی مسجد بنوائی تھی، جو پہلے کچی اینٹوں کی بنی ہوئی تھی، بعد میں اسے پختہ کرا یا گیا۔ یہ مسجد ابتدا میں محض اندرونی ایوان کی اراضی پر مشتمل تھی، بیرونی صحن کا اضافہ بعد میں کیا گیا۔ یہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس میں کم و بیش ایک ہزار بندگان خدا نماز ادا کرسکتے ہیں۔
مسجد کا صحن بہت کشادہ ہے، صحن میں وضو کے لئے نل لگے ہوئے ہیں۔ مسجد کے صدر دروازے کی دونوں جانب نیلے رنگ کی کاشی کی اینٹیں ہیں، جو دیکھنے میں نہایت خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔ دالان کے مغرب میں سبز جالی دار دروازے ہیں اور شمالی دیوار میں پھول دار نقش ہیں۔ دیواروں کے اندرونی حصہ میں آئینہ بندی اور گلکاری کی گئی ہے، جس کی جھلملاہٹ بڑی دلکش معلوم ہوتی ہے۔
مسجد کے شمال و جنوب کی جانب دو بلند مینار ہیں، جن کے ستون پیلی اور ہری جالی کے بنائے گئے ہیں۔ شاہ لطیف نے یہاں آمد کے بعداپنے ساتھیوں کی ضرورت کے لئے جو کنواں کھدوایا تھا وہ اب بھی موجود ہے۔ اس کنویں کی ایک خصوصیت عجائبات میں شمار کی جاتی ہے ۔ زمین سے خاصی بلندی پر واقع ہونے کے باوجود بھی اس میں پانی کی سطح ٹیلے کی نیچے والی زمین سے کافی بلند نظر آتی ہے۔شاہ لطیف کے سجادہ نشینوں نے بڑے صحن کے جنوب مشرقی گوشے میں ایک لنگرخانہ تعمیر کرایا اور سبیل بھی قائم کی۔ اس لنگر خانے کی وقتاً فوقتاً مرمت ہوتی رہی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کش درگاہ سے متصل ایک ثقافتی مرکز اور شاہ عبداللطیف ایکسیلنسی سینٹر بھی قائم ہے۔ ثقافتی مرکز میں ریسٹ ہائوس، آڈیٹوریم، دارالمطالعہ کتب خانہ، عجائب گھر، موسیقی کی درسگاہ اور طالب علموں اور صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کی اقامت گاہیں شامل ہیں۔ یہ ساری عمارات مشرقی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ پاکستان اور بیرونی ممالک کے سیاح اور معزز مہمان کثیر تعداد میں اس عظیم شاعر کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں تو ثقافتی مرکز سے ملحقہ ہوسٹل یا ریسٹ ہائوس میں ٹھہرتے ہیں۔