• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کی ابھرتی ہوئی پراونشل مینجمنٹ سروس آفیسرز ایسوسی ایشن ایک مرتبہ پھر پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے چیف سیکرٹری سے کچھ نالاں دکھائی دے رہی ہے۔ حال ہی میں صوبائی مینجمنٹ آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر نوید شہزاد مرزا نے صوبے کے سب سے بڑے بیوروکریٹ کو انتہائی عاجزی کے ساتھ محرومیوں اور مایوسیوں بھرا ایک خط لکھا۔ اس جرأت کی بہرحال انہیں ایک ہلکی پھلکی نصیحت بھی حاصل ہوئی کیونکہ انہیں ڈپٹی کمشنر حافظ آباد کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے اور ایڈیشنل سیکرٹری اسکولز ایجوکیشن تعینات کردیاگیا۔ خیر اس حوالے سے حکومت کو تھوڑا شک کا فائدہ دے دینا چاہئے کیونکہ وہ گزشتہ ڈھائی سال سے ڈپٹی کمشنر حافظ آباد ہی تھے۔ کوئی بھی افسر جتنی دیر چاہے ڈپٹی کمشنر رہ سکتا ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ دراصل جنوری 2019 میں شروع ہوا جب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار حافظ آباد کے دورے پر گئے تو ڈپٹی کمشنر نوید مرزا اور وہاں پر تعینات دیگرپی ایم ایس افسران نے کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں جو کہ ایک پرامن احتجاج تھا ۔ وزیر اعلیٰ نے استفسار کیا کہ کالی پٹیاں باندھنے کی کیا وجہ ہے تو نوید شہزاد مرزا نے کہا کہ جناب صوبائی مینجمنٹ سروس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ سی ایس پی رولز 1954 میں درج پنجاب کے شیڈول کے مطابق پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس (ڈی ایم جی) افسروں کی صوبے میں 47 پوسٹیں ہوں گی جبکہ یہ گروپ 115 پوسٹوں پر براجمان ہے۔ اسی طرح پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر نے وزیر اعلیٰ کو سی ایس پی رولز کے سب رول 7.1 کا حوالہ دیا جس میں یہ صاف لکھا ہے کہ شیڈول میں دی گئی پوسٹوں کی شیئرنگ ہوگی لیکن پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس نے پورے صوبے کی ایس اینڈ جی اے ڈی کی پوسٹوں پر فارمولا لگا رکھا ہے جس سے صوبائی مینجمنٹ سروس کے افسروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس لئے پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن ایک مرتبہ پھر سرگرم عمل ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 240B کے تحت صوبائی پوسٹوں پر فیصلہ صوبائی اسمبلی کا اختیار ہے۔ پی ایم ایس افسر یہ ایشو پنجاب اسمبلی میں اٹھانے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن پی ایم ایس افسران کے مطابق سپیکر کی واضح ہدایات کے باوجود یہ کیس پچھلے ڈیڑھ سال سے پنجاب اسمبلی کی کمیٹی نمبر 8 میں زیر التوا ہے جس کے سربراہ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل اس کمیٹی کی آخری میٹنگ ہوئی جس میں صوبائی مینجمنٹ سروس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کو بلا کر دونوں کا موقف سننے کا کہا گیا لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی کمیٹی کا اس حوالے سے اجلاس ہی نہیں بلایا گیا۔ پی ایم ایس افسران کے مطابق صوبائی پوسٹوں پر کوٹے سے زیادہ تعیناتیاں کرنے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن آئین کے آرٹیکل 240B کی پامالی کر رہی ہے۔ پنجاب میں اس وقت موجودہ تناسب کے مطابق پی ایم ایس افسران گریڈ 17 کی پوسٹوں پر 25فیصد، 18پر 40فیصد، گریڈ 19پر 50فیصد، گریڈ 20 میں 40 فیصد اور گریڈ 21 میں 35 فیصد پوسٹوں پر تعینات ہیں ۔ گریڈ22 کی پوسٹ صوبے میں سب سےبڑی ہوتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سی ایس پی رول 7.1 میں گریڈ 22 کی پوسٹ کا ذکر ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صوبے کی پوسٹ ہے۔

شیڈول میں صرف چیف سیکرٹری کا نام ہے جس کامطلب ہے کہ صوبے میں دیگر 2بڑی پوسٹیں جن میں ایس ایم بی آر اور چیئرمین پی اینڈ ڈی ہیں، کو پی ایم ایس افسران اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے مارچ 2021 میں ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کی صوبوں میں سیٹیں 115 سے بڑھا کر 446 کر دی گئیں لیکن پشاور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ان احکامات کو معطل کردیا۔ اب ذرا پی ایم ایس ایسوسی ایشن کی طرف سے چیف سیکرٹری کے نام لکھے گئے کھلے خط کی طرف آتے ہیں جس میں یہ جسارت کی گئی ہے کہ پی ایم ایس افسران کی پوسٹوں پر ریگولر کی بجائے قائم مقام ترقیاں کی جارہی ہیں جو کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور کابینہ کی طرف سے کئے گئے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔ چیف سیکرٹری کو پی ایم ایس افسران کی ترقیوں، تعیناتیوں اور ٹریننگ کے حوالے سے ان کے وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔ پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر نوید شہزاد مرزا نے اس خط میں 1688 میں پیدا ہونے والے برطانیہ کے ایک مشہور شاعر اور مزاح نگار الیگزینڈر پوپ کا ایک شعربھی لکھا ہے جو کہ کچھ یوں ہے:

HOPE SPRINGS ETERNAL IN THE HUMAN BREAST

MAN NEVER IS, BUT ALWAYS TO BE BLEST

چیف سیکرٹری پنجاب سے کہاگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کرنا اور شائستگی کے ساتھ انصاف قائم رکھنا ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جوڈیشل سسٹم اس وقت مداخلت کرتا ہے جب ایگزیکٹو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اگر چیف سیکرٹری اپنے ماتحت کام کرنے الے ایگزیکٹوز کے اہم حصے پی ایم ایس افسروں کو انصاف فراہم نہیں کرسکتے تو عوام کو کیسے انصاف فراہم کریں گے؟ خط میں کہاگیا ہے کہ صوبائی مینجمنٹ سروس کے افسران کے خلاف امتیازی سلوک والی پالیسیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پی ایم ایس افسروں میں ترقیوں کے حوالے سے ان کے جائز اور قانونی حقوق نہ ملنے کی وجہ سے شدید غصہ پایا جاتا ہے جسے فوری طور پر قانون کے مطابق حل کرنے کی اشدضرورت ہے۔ صوبائی مینجمنٹ سروس کے افسران کی اس نمائندہ تنظیم کی طرف سے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے خط کے بعد یہ ڈویلپمنٹ ہوئی کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری سروسز اور سیکرٹری آئی اینڈ سی پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جبکہ پی ایم ایس ایسوسی ایشن کی طرف سے صدر نوید شہزاد مرزا، جنرل سیکرٹری ظفر نقوی اور سینئر نائب صدر خالد فاروقی کو بھی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کمیٹی کی ایک میٹنگ پہلے ہو چکی ہے جس میں تین نکات پی ایم ایس افسران کی ریگولر پروموشن ، پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کی تعداد اور 3 مارچ 2018 کو ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں چیف سیکرٹری کی طرف سے کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ آج دوسری میٹنگ ہے۔نتیجہ تو پتہ نہیں کیا نکلےگا لیکن پی ایم ایس ایسوسی ایشن کی جہد مسلسل شاید کچھ کام دکھا دے۔

تازہ ترین