ڈاکٹر رفعت سلطانہ
زمانۂ قدیم سے ٹڈی دل کی تباہ کاریوں اور فصلوں کا بڑے پیمانے پر خاتمہ، غذائی قلّت اور معاشی بدحالی کی صورت حال کے پیدا ہونے کے شواہد بتاریخ ملتے ہیں ۔جن کے مطابق خطّۂ اَرض پر معاشی طور پر مستحکم قومیں بھی صرف اور صرف ٹڈی دل کے اچانک نمودار ہونے کی آفت سے دوچار ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔
ان قحط زدہ تہذیبوں کے نام و نشان تک مٹ گئے۔ بڑے پیمانے پر حشرات کی تباہی برپا ہونے کی بنیادی وجہ اس کی (Hatching) کی ٹائم پیریڈ کی معلومات نہ ہونےکے ساتھ ساتھ اس کے آبائی مسکن، رہن سہن، موسمی تغیرات پر تحقیق کا فقدان تھا اور اب بھی ہے، ایک عام کسان اس کے تولیدی نظام، بالغ نابالغ (Stages) سے بالکل ناواقف ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب اس کا (Swarm) برپا ہوتا ہے تو کسان کمیونٹی کے ساتھ ساتھ کنٹرول ایجنسیاں بھی صرف ہاتھ پرہاتھ رکھ کربیٹھ جاتی ہیں اور اس اچانک قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیےان کے پاس کوئی حکمت عملی واضح نہیں ہوتی، تاہم تاریخی مطالعے سے یہ عیاں ہے کہ اس کی ابتدائی Swarm کو جلد ہی کنٹرول کر لیا گیا تھا ۔
مختلف کیمیائی اور کلچر طریقوں سے، تاہم بدقسمتی سے 2019ء کے (Swarm) کا پیش منظر بہت ہی بھیانک تھا۔ دراصل 2018ء میں مسلسل موسمی تغیرات کی تبدیلیاںجن میں بکثرت بارشوں کا ہونا، درجۂ حرارت میں اضافہ اور قبل از وقت سائیکلون کی وجہ سے ٹڈی دل کی تولیدی نمو کو بہت تقویت ملی اور یہ ملین بلین کی تعداد میں یمن سے سفر کرتے ہوئے۔ ایران، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کو اپنا نشانہ بناتے چلے گئے۔عموماً ٹڈی دل میں دو اہم مراحل ہوئیں ہیں ۔جن میں (solitary) تنہا حالت ہے اس میں تعداد کم ہوتی ہے ،جب کہ دوسرا مرحلہ gregarious phaseکہلا تا ہے ۔یہ اجتماعی حالت کہلاتی ہے ۔ اس میں بڑی تعداد شامل ہے۔
ان دونوں مراحل میں فرق بڑا ہی دلچسپ ہے۔ پہلی والی مضر اثرات کی حامل نہیں جب کہ دُوسری Swarm Phase جیسی صورت حال پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے،تاہم اگر ان کو غذائی قلّت کا سامنا ہو اور علاقے کی آب و ہوا ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھے تو یہ ایک جگہ سے دُوسری جگہ سفر کرتے ہیں ۔جہاں آب و ہوا سازگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطّے میں بکثرت بارشیں ہوں۔ Solitary حالت سے یہ Gregarious حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگر اس کو غذائی قلّت کا سامنا ہو۔2019 ءکے ٹڈی بھیڑ جو کہ مشرق سے نمودار ہوا ،جس میں ایران، انڈیا اور پاکستان جب کہ مغرب اطراف میں مشرقی افریقا اور کینیا شامل تھے۔ ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ خیال ہے کہ یہ گزشتہ 70 سالہ تاریخ کا بدترین ریکارڈ تصور کیا جائے گا۔
اگر 1950ء کی دہائی کی بات کی جائے تو ٹڈی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر Plant Protection محکمے نے کئی کئی ہوائی جہازوں کا استعمال کیا، جس کے ذریعے dieldrinکا اسپرے کیا گیا۔ اس حشرات کش دوا کا استعمال بالغ اور نابالغ دونوں Stages پر کیا گیا اور اس اسپرے کے ٹڈی پر کافی مثبت نتائج سامنے آئے،تاہم اس کیمیائی اسپرے کے بعد انسانی صحت کے کئی قسم کے مسائل کے ساتھ ساتھ ایکو سسٹم میں خرابی ماحولیاتی آلودگی اور کئی ان گنت مسائل پیدا ہوئے ۔ان تمام مسائل کے پیش نظر (FAO) Food Agriculture Organization، World Health Organization کے ساتھ کئی ماحولیاتی ایجنسیاں بالآخر اس نتیجے پر متفق ہوئیں کہ (Eco-Friendly Stragies) کو اپنایا جائے جو ان گنت مسائل سے نمٹنے کا واحد اور مؤثر حل ہے۔
اس ضمن میں 1988ء میں FAO کا ایک ریفری گروپ تشکیل دیا گیا تھا ،جس میں حیاتیاتی حشرات کش ادویات کے استعمال کو متعارف کروانے کی سفارش کی گئی اور باقاعدہ اس کا پلان مرتب کیا گیا۔ CABI نے ایک بین الاقوامی پروگرام (LUBILOSA) کو متعارف کروایا ،جس میں کئی قسم کے Bio Pesticides جو کہ فنجائی metarhizium وغیرہ سے تیار کردہ تھے۔ ان کو حیاتیاتی ایجنڈا کے طور پر روشناس کروایا گیا، جس کا بنیادی مقصد حیاتیاتی زندگی کی بقا کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کے خطرناک حملے کو روکنا اور ماحول کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اس Bio-Pesticidesکے باقاعدہ اسپرے کے لیے ایک جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت محسوس کی گئی اور تاریخ میں پہلی بار ڈرونز کا استعمال کرنے والے معاملے کو زیربحث لایا گیا، تاکہ ڈرونز کے ذریعے اس کا استعمال دُور دراز علاقوں میں کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈرونزکا استعمال ٹڈی دل کے حملے کو مکمل روکنے اور اگر کہیںپر اس کا حملہ ہو چکا ہے تو اس کی فوری حکمت عملی کیے لیے بھی پلان تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ڈرونز کے ذریعے BioPesticides کے اسپرے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈرون کیا ہے اور یہ کس طرح کام سرانجام دیتا ہے؟ یا اس کی ٹیکنالوجی کے ٹڈی دل کی روک تھام میں کیا کردار ہے؟۔ اس کے استعمال کے کیا فوائد یا نقصانات ہیں ۔
ڈرونز دراصل اُن علاقوں کے لیے کارآمد ہیں جہاں انسانی رسائی ممکن نہیں ہے۔ کیڑے مار ادویات کو اسپرے کرنے کے لیے (Map Sensors) میپ سینسرز اور ایٹمائزرز سے لیس ڈرونز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ FAO نے 2018ء میں ڈرونزٹیکنالوجی کے بڑے ہی کامیاب ٹرائل کیے ۔جن میں نقشہ جات کی مدد سے ان تمام جگہوں کی نشان دہی کی گئی۔ جہاں جہاں پر ٹڈی دل موجود تھیں اور فصلیں تیار تھیں یہ ہی وجہ تھی کہ یہ جگہیں ٹڈی دل کی افزائش نسل کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ عموماً ایک ڈرون جس کا انحصار شمسی توانائی پرہوتا ہے۔ اس کی رفتار 100 کلو میٹریا پھر اس سے زیادہ ہوتی ہے۔
ڈرونز کا پہلا ہدف کسی بھی علاقے میں Vegetations(پودے اُگانے کا عمل)کور کو تلاش کرنا ہے۔ اس کی فلائٹ کافی اونچائی تک اُڑتی ہے ،جس کے دوران یہ Vegetation کور کی تصاویر حاصل کرتا ہے اور اس کو فوری طور پر سروے ٹیم کو فراہم کر دیا جاتا ہے۔ڈرونز کو دستی طور پر آٹومیٹک اور روبوٹ کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ FAO کے ان تمام تجربات کا دورانیہ تقریباً 3 سالہ منصوبہ تھا۔ اس کے بعد ہی ڈی لوکسٹ Dlocust) )ڈرونزکا وجود سامنے آیا جو کہ بعد میں 2020ء کے ٹڈی دل کے آپریشن کے خلاف کامیابی سے استعمال ہوا دراصل ڈی لوکسٹ ڈرونزفلائٹ کے درمیان میں تمام Vegetation کور کی تصاویر حاصل کرتا ہے اور جب ڈی لوکسٹ ڈرون اپنا سروے مکمل کرتا ہے ۔ تو اس کے نتائج فوری طور پر ELoust 3 tab پر منتقل ہو جاتے ہیں، جس کی روشنی میں کوئی بھی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، اس طرح فیلڈ ٹیم کو کسی اضافی لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ Elocust3 کے ذریعے ڈی کولسٹ کی فلائٹ کا شیڈول اور ڈرونزکو آپریٹ کرنے کا منصوبہ بھی بآسانی مرتب کیا جاتا ہے۔ ڈرونزکے استعمال سے دُور دراز علاقوں کا سروے مرتب کر کے وہاں جاری سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ دُور دراز علاقوں میں موجود Vegetation کور کی جان کاری بھی شامل ہے۔ جن علاقوں میں انسانی رسائی ممکن نہیں وہاں اگر ڈرونز کا استعمال نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں یہ ہی علاقے کسی بڑے چیلنج کا موجب ہوں گے اور اُن سے پیدا ہونے والی صورت حال 2019-2020 کی صورت حال سے مزید اَبتر ہوگی۔
ایک درمیانی سائز کا (Multi-Rotor Drones) تقریباً 10کلو گرام کا اسپرے کر سکتا ہے اور یہ تقریباً 5 تا 15 منٹ میں مطلوبہ ہدف مکمل کر لیتا ہے ،اپنی جسامت میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کو کسی بھی متاثرہ علاقے میں استعمال کر کے ہم کم وقت میں بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں ۔اب تک اس کا کامیاب استعمال انڈیا، چین اور کینیا میں کیا گیا، تاہم تاریخی شواہد کے مطابق اس کا سب سے پہلے استعمال مغربی افریقامیں کیا گیا ۔جہاںگرین گارڈ (Green Guard) کو مختلف علاقوں میں اسپرے کیا گیا یہ تمام سرگرمیاں ایک تحقیقی پروجیکٹ کا حصہ تھیں۔ اس پروجیکٹ میں سب سے پہلے فنجائی کی ایک قسم metarhizium Isolate Imi330189 کا استعمال کیا گیا۔ ان کے اسپرے کے بعد 98 فی صد ٹڈی دل کا صفایا ہوا جو کہ زمین کی اُوپری سطح پر تھے۔ Bio Pesticides کو دراصل Novacride کے زمرے میں لایا جاتا ہے۔
یہ دراصل ایک خشک پائوڈر ہے۔ ڈرونز کا کامیاب تجربہ کینیا میں کیا گیا،جس کے ذریعے یہ اندازہ مرتب کرنا تھا کہ آیا یہ کم سے کم وقت میں کتنے ٹڈی دل کو ٹارگٹ کرسکتا ہے۔ اس آپریشن میں ڈرون فلائٹ کا 3کلومیٹر اور 2.5 ملی میٹر کا ہدف تھا اور ڈرون کی اسپیڈ 7m/s تھی۔ اس میں تقریباً 16 نوزیل 2.5 میٹرکی اُونچائی کے ساتھ نصب تھیں۔ ڈرون خودکار آلے سے اپنی اُونچائی کا تعین کرتا ہے۔ پائلٹ اسپرے کی مقدار کو مطلوبہ ہدف سے اخراج کو ممکن حد تک کنٹرول کرتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا سب سے اہم پہلو جو غور طلب ہے یہ تھا کہ وہ علاقے جو انسانی رسائی سے محروم ہیں۔ اُن علاقہ جات میں کم لاگت اور کم وقت میں حشرات کش ادویات کے اسپرے کو ممکن بنایا جا سکے، تاہم ڈرونز کے استعمال کے لیے اسپرےتیار کرنے والے ماہرین، پائلٹ، جو تربیت یافتہ ہو، آپریٹر ٹرانسپورٹر کے ساتھ ساتھ وافقر مقدار میں ایندھن کی ضرورت ہے، تا کہ اس کی بیٹریوں کو بروقت ری چارج کیا جا سکے۔
عموماً بیٹری کو 75 گھنٹوں کے بعد دوبارہ ری چارج کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ڈرونز کو نسبتاً مہنگی ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے،تاہم یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ Bio-Pesticides کے استعمال سے فصلوں، جنگلات، پھلوں اور زرعی اراضی کو ممکنہ ہر طرح کے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے ۔ان نقصانات کے ازالے کے لیے اس مہنگی ٹیکنالوجی کا رسک لینا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ڈرونز سے اسپرے کے بعد جو کہ Bio-Pesticides کی فارم میں کئے گئے ہیں۔ فیلڈ میں شکاری پرندوںکا بھی اضافہ دیکھنے میں سامنے آیا۔ ان پرندوں نے جلد ہی متاثر شدہ حشرات کو اپنی غذا بنا لیا اور ماحول میں کسی بھی قسم کی آلودگی نہیں ہوئی۔ Bio -Pesticides کا کوئی بھی منفی اثر فیلڈ میں موجود حشرات اورپرندوں پر نہیں ہوا۔ اس کی مدد سے صرف ٹارگٹ حشرات کو ہی مارا گیا۔ اگر ڈرونزکوجدید آلات سے آرائش کیا جائے تو یہ کم وقت اورکم لاگت میں تمام ٹڈی دل زدگان علاقوں میں بڑے مؤثر اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ڈرونزکا استعمال اگر باقاعدہ SOP کے تحت کیا جائے تو دُور دراز علاقوں میں اُن تمام Locust Breeding جگہوں کی نشان دہی ہو سکتی ہے اور اس کے مؤثر تلف کےلیے حکمت عملی مرتب کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں ٹڈی دل کے خاتمے اور بروقت کنٹرول کےلیے چینی حکومت نے پاکستان کو ایراس ٹی 16 ڈرون کا عطیہ دیا جو کہ چین کی کمپنی شین چین (DJI) ٹیکنالوجی کمپنی سے تیارشدہ تھا، جس کی وجہ سے 2020ء میں کئی علاقوں پر فضائی اسپرے کیا گیا۔ اس قدرتی آفت کے علاوہ بھی ڈرونزمختلف مقاصد جن میں تفریحی سرگرمیاں، فوٹو گرافی، تجارتی اور فوجی کام شامل ہیں۔ ان میں بھی ڈرونز کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کے دو ہی بنیادی کام ہیں پرواز اور نیوی گیشن، تاہم پرواز کے دوران اس کوبیٹری، ایندھن، روٹرز، پروپیلرز اور یک فریم کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکافیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی (FAA) کے مطابق امریکا میں ڈرون اُڑانا قانونی حق ہے، تاہم ترقّی پذیر ممالک میں ان قوانین کا فقدان ہے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے ہماری براہ راست رسائی نہیں ہے جب کہ دُنیا کے کئی ترقّی یافتہ ممالک میں زراعت کےفروغ کے لیے فصلوں کو حشرات سے بچانے، مویشیوں کی نگرانی اور دیگر زرعی استعمال میں ڈرون کا استعمال ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ٹیکنالوجی کا یہ استعمال پاکستان میں نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کسانوں کےلیے کئی طرح کے تکنیکی زرعی مشکلات ہیں وہ دن رات محنت کرکے بھی بین الاقوامی ہدف کو پورا نہیں کر پاتے ہیں اور نہ ہی ہماری زرعی پیداوار بین الاقوامی ضوابط کوپورا کر پاتی ہیں۔
ڈرونز ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کاشت کار اپنے کھیتوں کا فضائی جائزہ گھر بیٹھے لے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی مخصوص اور دُور دراز علاقے میں اپنی کھیت کا مکمل ڈیٹا بیس (Data Base) مکمل کر سکتے ہیں۔ ڈرون کسی بھی حالت میں بھی آپ کو ڈیٹا اکٹھا کرکے دیتا ہے جب کہ کاشت کاروں کو گرائونڈ میپنگ کے ساتھ ساتھ مستقل اورطویل مدتی فیصلے کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔
اب ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ملک میں اس نئی ٹیکنالوجی کی افادیت و اہمیت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ دور جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کوہنگامی بنیادوں پر فروغ دیا جائے ،کیوںکہ اس ٹیکنالوجی کو اپنائے بغیر ہم مستقبل میں وقوع پذیرہونے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آنےوالے بحرانوں کا مقابلہ صرف اور صرف اس صورت ہی ممکن ہے کہ ہم اب اپنے روایتی طریقوں کو چھوڑ کر دُنیا کے ساتھ چلنے اور اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے اپنے آپ کو اس نئی ٹیکنالوجی سے آشنا کریں یہ ہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیےضروری ہے۔