ہماری محبوب رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق جدھر جاتی ہیں کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہیں۔ کیا بیوروکریسی، کیا سیاست دان، انہوں نے سب کو آگے لگا رکھا ہے۔ سیالکوٹ فروٹ منڈی میں بیوروکریسی کی خبر لی تو اسلام آباد کے ایک ٹاک شو میں قادر مندو خیل کو تھپڑ مار ڈالا، بات یہیں تک محدود نہیں۔
وہ اس سے پہلے اینٹیں توڑنے، موٹر سائیکل چلانے اور کرکٹ کھیلنے کے مظاہرے بھی کر چکی ہیں۔ موصوفہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، سو وہ ٹیکے لگانے کی بھی ماہر ہیں جسے چاہیں مریض بنا کر ویکسین کا ٹیکہ لگا دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جملہ خصوصیات اور سرگرمیوں کو دیکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر شعبے کی چیمپئن ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی رفتار چھلاوے جیسی ہے، آج ادھر ہیں تو کل اسلام آباد میں ہوں گی، دوپہر سیالکوٹ میں ہیں تو شام فیصل آباد میں ہوں گی۔ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں فاصلہ ان کی صرف ایک چھلانگ کے برابر ہے۔ رفتار ان کی تیزگام جیسی ہے۔
اِدھر فیصل آباد پریس کلب میں ویکسین سینٹر کا افتتاح کیا، اُدھر شام کو اسلام آباد کے ٹاک شو میں براجمان ہو گئیں۔ ان کی رفتار کو پکڑنا کسی عام آدمی کے بس میں نہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کا بیانیہ بڑا واضح ہے۔ (ن) لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، کسی کے لئے ان کے پاس رحم کی گنجائش نہیں۔ (ن) لیگ کی خواتین قیادت بالخصوص ان کا نشانہ ہے۔ وہ اُنہیں راجکماری اور کنیزوں کے لقب سے پکارتی ہیں۔ ان کا موضوع سخن بالخصوص مریم نواز اور مریم اورنگزیب ہیں
ڈر اس دن سے لگ رہا ہے جب چیمپئن فردوس عاشق کا مقابلہ نہتی اور اکیلی مریم اورنگزیب سے ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اور اگر خدانخواستہ ہاتھا پائی تک نوبت آ گئی جس کا چیمپئن کی موجودگی میں بہت زیادہ امکان ہے تو پھر کیا ہوگا؟ ڈاکٹر فردوس عاشق تو چاہیں گی کہ تمام سیاسی فیصلے آمنے سامنے کے مقابلے کے ذریعے ہی کئے جائیں، یہ الگ بات ہے کہ ن لیگی خواتین اس مقابلے سے ہی گریز کریں۔
گو پاکستان کا سیاسی میدان کافی وسیع ہے، اس میں طرح طرح کی لڑائیاں جاری رہتی ہیں لیکن ڈاکٹر صاحبہ کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ وہ ان لڑائیوں میں سے ہمیشہ خود کو توجہ کا مرکز بنائے رکھتی ہیں۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں ان کا کردار اہم تھا، ابھی مسلم لیگ ن کے ایم پی اے خوش اختر سبحانی کی وفات کے بعد جو نشست خالی ہوئی ہے وہاں پھر ضمنی انتخاب ہوگا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق نے ابھی سے وہاں مضبوط اور دولتمند امیدوار کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پچھلی بار 40ہزار ووٹ لینے والا سعید بھلی پریشان بیٹھا ہے جبکہ ڈاکٹر صاحبہ پہلے سیالکوٹ کے چیموں کے دروازے پر دستک دیتی رہیں، وہ تیار نہ ہوئے تو اب قیصر بریار کو ٹکٹ دلوا دیا گیا، یوں جاٹ گوجر مقابلہ ہوگا۔ بریار اور ڈاکٹر فردوس عاشق زور تو لگائیں گے، نتیجہ دیکھیں کیا ہو گا؟
ڈاکٹر فردوس عاشق وفاق سے پنجاب میں آ تو گئی ہیں مگر وفاق کو نہیں بھولیں۔ ایک زمانے میں جب سینیٹر شبلی فراز وفاقی وزیر اطلاعات تھے تو ڈاکٹر فردوس عاشق پنجاب میں ہوتے ہوئے بھی پورے ملک پر چھا گئی تھیں۔ چودھری فواد کے آنے کے بعد سے اب معاملات معمول کے مطابق چل پڑے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں، اسپورٹس، سیاست اور سماجی حالات سب پر وہ اتھارٹی ہیں، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا، اس لئے سیاست تو ان کی نس نس میں بھری ہے۔ حلقے کی سیاست ہو، ضلع سیالکوٹ کی سیاست یا پنجاب یا وفاق کی سیاست، ان کا ہر ایک میں کردار ہے۔ ہر جگہ ان کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا دخل بھی نظر آتا ہے۔ سیالکوٹ میں ڈار برادران سے ان کے معاملات میں اونچ نیچ کا تو ہر ایک کو علم ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی دلیری اور بہادری ہے، وہ اپنے سیاسی بیانیے اور اپنے سیاسی دھڑے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہیں۔ اس موقف کے لئے انہیں ہاتھ پائوں کا استعمال بھی کرنا پڑ جائے تو وہ دریغ نہیں کرتیں جہاں زبان سے کام نہ چلے وہ تھپڑ سے بھی کام چلا لیتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ مردوں میں مرد اور عورتوں میں عورت بن جاتی ہیں، ان کی میک اپ اور ڈریس پر توجہ بتاتی ہے کہ وہ اندر سے پوری عورت ہیں لیکن کرکٹ میں چوکے چھکے لگانے ہوں، جوڈو کراٹے میں اینٹیں توڑنی ہو، موٹر سائیکل چلانی ہو تو وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہتیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق کو پنجاب میں اطلاعات کا خصوصی مشیر اس لئے بنا کر بھیجا گیا کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بزدار صاحب کے کارناموں کو عوام کے سامنے اجاگر کریں چنانچہ جس دن سے وہ پنجاب میں آئی ہیں اس دن سے بزدار کی گڈی چڑھ گئی ہے اور اپوزیشن کی پتنگ کٹ گئی ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب ڈاکٹر فردوس اپوزیشن کی راج کماریوں اور کنیزوں پر نہیں برستیں اور کوئی دن خال نہیں جاتا جس روز ڈاکٹر فردوس عاشق بزدار کی تعریف میں ڈونگرے نہ برسائیں۔ ڈاکٹر صاحبہ اس قدر سرگرم ہو گئی ہیں کہ بعض اوقات ان کی سرگرمیاں، یعنی کسی کے ساتھ سردی اور کسی کے ساتھ گرمی، اس قدر شہرت اختیار کر لیتی ہیں کہ بزدار اور پی ٹی آئی کی سیاست پیچھے رہ جاتی ہے۔
میں ذاتی طور پر ڈاکٹر فردوس عاشق کا خیر خواہ ہوں لیکن آج کل ان کے لئے پریشان بھی ہوں کیونکہ انہوں نے ہر طرف جھنڈے تو گاڑ دیے ہیں لیکن ان کی بےپناہ صلاحیتوں اور خوبیوں کے مقابلے میں ان کے پاس اختیارات بہت کم ہیں۔ ان جیسی باصلاحیت رہنما کے پاس کئی محکمے اور کئی شعبے ہونے چاہئیں۔ صرف اطلاعات کا شعبہ بلکہ چھوٹی سی محکمی انہیں دینا ان کی بےپناہ صلاحیتوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعلیٰ پنجاب لا اینڈ آرڈر کا شعبہ ان کے حوالے کر دیں وہ ایسا ڈنڈا پھیریں گی کہ صوبے سے چوروں، ڈاکوئوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور اپوزیشن اس کا تو کوئی نام لیوا تک نہیں رہے گا۔
ہر شخصیت کے بارے ستارہ شناس یہ قیافہ لگاتے ہیں کہ وہ دس سال بعد کہاں ہو گی؟ ڈاکٹر فردوس کے بارے میں علمِ نجوم کے ماہرین جو بھی کہیں، علمِ سیاست کے ماہر ببانگ دہل یہ کہیں گے کہ ڈاکٹر فردوس دس سال بعد میدانِ سیاست میں چمک رہی ہو گی۔ حکومت کوئی بھی ہو گی لیکن ڈاکٹر صاحبہ کا ستارہ اس میں عروج پر ہو گا۔ ڈاکٹر صاحبہ ایسی خصوصیات کی حامل ہیں کہ حکومتوں کے زوال سے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ وہ کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ نکال کر گہرے بادلوں سے نکل کر پھر سے چمکنا شروع کر دیتی ہیں۔ خصوصیات کے علاوہ انہیں روحانی دعائوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے، خاص کر ان کی بیمار اور بوڑھی والدہ کی دعائیں اور پھر روحانی شخصیتوں کی سپورٹ بھی موجود ہے۔
میری دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کا ستارہ ہمیشہ چمکتا رہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہاتھ پائوں کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا شروع کریں یہ نہ ہو کہ کسی دن کوئی پہلوان مدِمقابل آجائے اور پھر ڈاکٹر صاحبہ کی طاقت کا بھرم کھل جائے۔ ویسے بھی سخت زبان اور ہاتھ پائوں کا استعمال ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)