• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کے ابتدائی دنوں میں پارٹی میں وہ لوگ نظر آتے تھے جو نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے تھے یا پھر پارٹی میں وہ نوجوان آئے جو ملک میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ایسے نوجوانوں میں مراد سعید، زرتاج گل، قاسم سوری، فیصل جاوید سمیت فرخ حبیب اور آصف محمود کے علاوہ کئی اور شامل ہیں۔ ویسے تو سینیٹر سیف اللہ نیازی بھی اسی صف میں ہیں۔ جب پی ٹی آئی مقبول جماعت بنی تو کئی مالدار افراد اس کا حصہ بن گئے۔ بڑے بڑے جلسوں کے بعد 2013میں پی ٹی آئی کا راستہ روک دیا گیا مگر 2018میں اس جماعت نے تمام رکاوٹوں کہ نہ صرف عبور کیا بلکہ اقتدار بھی حاصل کر لیا۔ گزشتہ تیس پینتیس برسوں سے برسر اقتدار رہنے والی جماعتوں سے جیت ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے پہلے ہی دن سے حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چونکہ پی ٹی آئی بڑے بڑے برج الٹا کر آئی تھی لہٰذا ان کا ذاتی غصہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی تو بہت پریشان ہوئے پھر انہوں نے باقی جماعتوں کو ساتھ ملایا، لانگ مارچ کیا، دھرنا دیا، مختلف شہروں میں جلسے کئے مگر ان تینوں مراحل میں عوامی طاقت نظر نہ آئی تو پھر سازشی تھیوریاں پیش کی جانے لگیں۔ کبھی کہا گیا کہ پہلے پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، کبھی کہا گیا کہ آغاز بلوچستان سے ہو، اس دوران ایک مرتبہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی مگر شکست کے خوف سے واپس لے لی گئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سامنے یہ سوال بار بار سر اٹھاتا ہے کہ آخر حکومت سے چھٹکارا کس طرح حاصل کیا جائے۔ کئی حکمت عملیوں سے ایک حکمت عملی استعفے دینے کی تھی جس کی پیپلز پارٹی نے مخالفت کی۔ پھر استعفے تو کسی نے نہ دیے مگر دو جماعتوں کو نوٹس ضرور دے دیے گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو نوٹس ہی پھاڑ ڈالا۔ یوں اے این پی اور پیپلز پارٹی والے پی ڈی ایم سے کہیں دور چلے گئے۔ ن لیگ کے کچھ رہنمائوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف بڑے تلخ اور ترچھے بیانات داغے، ان بیانات سے فاصلے بڑھے، تلخیاں بڑھیں اور دوریاں پیدا ہو گئیں۔ پھر حکمت کاروں نے ن لیگ میں مہرے کو تبدیل کیا، شہباز شریف کے آتے ہی ایک اور حکمت عملی سامنے آئی کہ ہم سب مل کر پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔ ان آوازوں میں بلاول بھٹو زرداری کی آواز بھی شامل ہو گئی۔ انہیں شاید سب سے زیادہ غصہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر پر ہے کہ وہ بعض اوقات انہیں تقریر نہیں کرنے دیتا، بعض اوقات آغا رفیع اللہ کو بھی قانون کا راستہ دکھا دیتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر شاید ن لیگ کو جماعتی طور پر غصہ کم ہو مگر کیا کیجئے میاں نواز شریف کے انتہائی قریبی دوست محمود خان اچکزئی کو قاسم سوری کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی تھی، حاجی لشکری رئیسانی بھی ہار گئے تھے۔ ان دو پہلوانوں کو شکست ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ ان سے جیتنے والا نوجوان ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ خود کو بڑے لیڈر سمجھنے والے پریشان ہیں کہ کوئٹہ میں شوق سے موٹر بائیک چلانے والا نوجوان کیسے قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بن گیا؟ پریشانی کے اِس عالم میں کچھ دولت مندوں نے حاجی لشکری رئیسانی سے کہا کہ آپ قانونی جنگ لڑیں، پیسے کی فکر نہ کریں، بس ہمیں قاسم سوری کرسی پر نظر نہیں آنا چاہئے۔ اپوزیشن کی جماعتیں قاسم سوری سے ناخوش رہتی ہیں کیونکہ قومی اسمبلی میں جب بھی مشکل صورتحال ہو تو تحریک انصاف اسپیکر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر کو آگے کر دیتی ہے۔ چند روز پہلے بھی کچھ قانونی بلوں کو پاس کروانے کا مرحلہ تھا، حکومت نے قاسم سوری کی صدارت میں اجلاس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بل منظور کروا لئے۔ یہ منظوری اپوزیشن جماعتوں سے ہضم نہیں ہو رہی لہٰذا انہوں نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟ اس کا جائزہ لینے سے پہلے تھوڑا سا تذکرہ ماضی کا ہو جائے۔ قاسم سوری کے خلاف الیکشن کی قانونی جنگ جب سپریم کورٹ پہنچی تو اس نوجوان سیاسی رہنما کے پاس وکلاء کی بھاری فیس نہیں تھی تب وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’قاسم سوری کا مقدمہ تحریک انصاف لڑے گی۔‘‘ مقدمہ لڑا گیا اور قاسم سوری جیت گیا۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اسمبلیوں کے باہر عرصے سے جاری ہے مگر اس دوران صرف یہ ہوا کہ حالات نے جہانگیر ترین گروپ کی صورت میں حکومتی جماعت میں اختلافات کی وضاحت کر دی۔ اپوزیشن ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا کے ترین گروپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ حکومتی جماعت بھی ترین گروپ کو راضی کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ گویا اس وقت ترین گروپ ترپ کا پتہ بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم پوری کوشش کریں گے کہ اپوزیشن کو ناکامی ہو کیونکہ پوری حکومت کی چیکنگ کے لئے یہ مرحلہ بڑا اہم ہے۔ یہی مرحلہ مستقبل کی سیاست کا تعین کرے گا۔ بقول سید یونس اعجاز ؎

نگر نگر یہی منظر ابھرنے والا ہے

کسی پہ تم تو کوئی ہم پہ مرنے والا ہے

تازہ ترین