یہ خبر بظاہر چھوٹی سی تھی مگر اس کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ میں کوشش کے با وجود اس خبر کے سحر سے باہر نہیں آ سکا ۔ بیس سال قبل ایک عسکری کتب خانے میں اپنے تحقیقی مقالے کے حوالے سے ایسے شعراء کرام کا کلام اکٹھا کر رہا تھا کہ جنہوں نے مادرِ وطن کے دفاع کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا میدانِ جنگ میں آتش و آہن برسانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذہنی آسودگی کیلئے شعر کی صورت میں رزمیہ ادب تخلیق کر رہے تھے اس جستجو کیلئے میرے اساتذہ نے بتایا کہ عسکری رسالہ جو کسی زمانے میں روزنامہ بھی ہوا کرتا تھا ’’ہلال‘‘ کی ورق گردانی کرنا پڑے گی اسی رسالے کی ادارت کیلئے اولیں مدیر چراغ حسن حسرت کو براہ راست میجر کا رینک لگا کر یہ اعزاز دیا گیا اور ان سے قبل قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو بھی اعزازی رینک دے کرایسے شعرا ء کو عزت و احترام سے نوازا گیا۔یہ ادبی اور قومی شخصیات بھی ’’ہلال ‘‘سے منسلک رہیں۔
جس خبر نے مجھے آج تک اپنی گرفت میں لے رکھا ہے یہ خبر بھی اسی معاصر میں پڑھی جو کہ اب تک قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کادرجہ اختیار کر گئی اس خبر کے مطابق ایک رات راولپنڈی کے علاقے ویسٹریج میں دو ڈاکوؤں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو مسافروں کے روپ میں روکا’’ فوکسی ٹیکسی ‘‘میں سوار ہوتے ہی اسلحے کے زور پر نقدی لوٹ لی اور اب وہ ٹیکسی چھیننا چاہتے تھے کہ ڈرائیور نے پرائی گاڑی جو کہ امانتاً لے رکھی تھی اس کے دفاع کیلئے مزاحمت شروع کر دی ڈاکوؤں نے ٹیکسی ڈرائیورکی یہ گستاخی دیکھ کر اس پر تشدد شروع کر دیا ۔ نحیف و نزار اور کمزور شخص کی چیخیں دور دور تک سنائی دینے لگیں اس علاقے میں عسکری تربیت یافتہ کتوں کا مرکز بھی قریب ہی تھا یہ دردناک چیخیں سن کر دو تین کتے دیواریں پھلانگتے ہوئے مذکورہ جائے واردات پر پہنچ گئے اور ڈاکوؤں پر حملہ آور ہو گئے۔ ایک انسان پر رحم کھانے والے کتوں نے ڈاکوؤں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیاکہ ڈاکو بھاگنے پر مجبور ہو گئے مگر ان کتوں نے ڈاکوؤں کے گرد گھیرا ڈال کر بھاگنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ یہی شور سن کرکتوں کی تربیت کرنے والا اہلکار بھی وہاں پرپہنچ گیا اور ڈاکوؤں کو پولیس کے حوالے کر دیا اور کتوں کو شاباش دیتے ہوئے واپس ڈاگ سینٹر میں بند کر دیا ۔
قارئین کرام!پاکستان کے کسی کونے کھدرے میں جب بھی کوئی واردات ، سانحہ یا المیہ رونما ہوتا ہے کہ جس میں چور، اچکے اور ڈاکو مسافر بردار گاڑیوں یا شہریوں کو گھروں کے اندر باندھ کر مال و متاع کے ساتھ زندگیاں بھی لوٹ لیتے ہیں ایسے میں یہ خبر میرے سامنے ایک زندہ وجود کو طرح جھنجھوڑنے لگتی ہے کہ ہمارے وہ ادارے جو ہماری حفاظت کی بجائے اور ڈاکوؤںکو پکڑنے کی بجائے’’ ڈاکو پروری ‘‘کرتے ہیں پھر’’ چھوٹو ‘‘اس قدر اپنی ریاست قائم کر لیتے ہیں کہ بڑے بڑے پولیس افسروں سے لیکر سیاست دانوںتک کی اشیرباد سے بیگناہ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو شہید کر ڈالتے ہیں تو پھر یہ خبر میرے ذہن کے صفحہ قرطاس پر اس قدر پھیل جاتی ہے کہ مجھے ان وفادار کتوں کی وفاداری کے سامنے سرکاری ادارے رائی کے برابر محسوس ہوتے ہیں جبکہ انسان کو درد اور کرب میں مبتلا دیکھ کر وہ کتے جو اپنے راستے کی تمام دیواریں پھلانگ کر ڈاکوؤں کو سبق سکھاتے ہوئے وہ کتے کسی پہاڑ سے کم نہیں لگتے اور ایسے میں عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ ؒ بھی یہی کہتے ہیں جس کا عملی مفہوم خبر میں پنہاں ہے۔
راتیں جاگیں کریں عبادت
راتیں جاگن کتے تیتھوں اُتے
بھونکنوں بند مول نہ ہوندے
جا روڑی تے ستے تیتھوں اُتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈدے
بھانویں وجن جتے تیتھوں اُتے
بلھے شاہ کوئی رخت وہاج لَے
نہی تے بازی لَے گئے کتے تیتھوں اُتے