عمران حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ پیش کر دیا مگر یہ بجٹ عوام کی تواقعات اور خوہشات پوری کرتے دکھا ئی نہیں دیتا ، وزیر اعظم عمران خان ان کی کابینہ کے ارکان اور سرکاری ترجمانوں نے معیشت کی مضبوطی ،زر مبادلہ کے ذخائر میں زبر دست اضافہ ،ٹیکسوں میں تاریخی ریکوری ،گندم ،چاول ،گنے اور دیگر زرعی اجناس میں کئی گناہ اضافہ کی خوشخبریاں سنائی معاشی حالات بہتر کرنے کے اعلانات حقیقت پر مبنی تھے جن کی وجہ سے عام آدمی اور غریبوں کی توقعات میں زبر دست اضافہ ہو گیا۔
عام لوگوں کا خیال تھا اڑھائی سال مہنگائی کی چکی میں پسنے کے بعد اب ہمیں حکومت خاصہ ریلیف دے گی سرکاری ملازمین کی تواقعات زیادہ تھیں کہ حکومت تنخواہوں اور پنشن میں کم سے کم 25 فیصد اضافہ کرے گی مگر حکومت نے صرف 10 فیصد اضافہ کیا جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے اور اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
بجٹ میں اگرچہ چھوٹے لوگوں کیلئے 5 لاکھ روپے روز گار کیلئے قرضہ ، مکانات کی تعمیر کیلئے 20 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ، زرعی آلات ، الیکٹرک کاروں ، خوردنی تیل ، گھی وغیرہ پر ٹیکسوں کی چھوٹ دینے کا عندیہ دیا گیا ہے ،تاہم موبائیل فون اور انٹر نیٹ کے چارجز بڑھا دیئے گئے ، غرض یہ کہ موجودہ بجٹ بھی ماضی کی طرح ادادو شمار کا گورکھ دھندہ لگ رہا ہے ایک شعبے میں چھوٹ دے کر دوسرے شعبوں میں ٹیکس لگا کر یہ رعایت واپس لے لی گئی ، ابھی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے فی الحال آئی ایم ایف کو روکا گیا ہے کہ فوری طور پر ہم بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھا سکتے جبکہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کر دیا ہے۔
اگر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گاجو عوام کیلئے ناقابل برداشت ہے عمران خان حکومت خوش قسمت ہے کہ عوام نے بڑے صبر و تحمل سےکمر توڑ مہنگائی کو برداشت کیا، اور اپوزیشن کی کسی بھی کال پر کان نہیں دھرے اور وہ اپوزیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود سڑکوں پر نہیں آئے ، مگر اس صبر و تحمل کا انہیں پھل نہیں ملا ،دوسری طر ف اگر اپوزیشن جماعتوں کے رویہ کا تجزیہ کیا جائے تو اپوزیشن جماعتیں بھی عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار میں آنے کے راستے ڈھونڈتی رہی ہے ، اپوزیشن عوامی مسائل پر توجہ دینے کے برعکس آپس میں دست و گریباں رہیں گیارہ جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) تو بنا لیا مگر یہ آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں میں اختلافات شروع ہو گئے اور وہ آپس میں ہی لڑنا شرو ع ہو گئی اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے شروع کر دیئے ، دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے ایک دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور دوسرے دن گھی شکر ہونے کا تاثر دیتے ہیں ، دونوں بڑی جماعتوں کے اس طرز عمل نے عوام کو مایوس کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کیلئے تیار نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت سے بہت خوش ہیں۔
اگر عمران حکومت نے مڈل کلاس اور غریب طبقے کی محرومیوں پر توجہ نہیں دی بے روز گاری مہنگائی پر کنٹرول نہیں کیا تو ایک خوفناک بھونچال آسکتا ہے جس سے حکومت کیلئے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گاعوام اب یہ بات سننے کیلئے تیار نہیں کہ ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے حکومت نے خود معاشی استحکام کی خوشخبریاں سنائی ہیں اب وہ کوئی دوسری بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم صاحب کو مرکز اور جن صوبوں میں ان کی حکومت ہے وہاں مہنگائی اور بے روز گاری پر کنٹرول کرنا ہو گا ، ابھی شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی عوام کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ کورونا کی کمی کے بعد سکول تو کھول دیئے گئے ہیں مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کلاس رومز میں پنکھے نہیں ،پینے کا پانی نہیں ، بجے بڑی تعداد میں بے ہوش ہور ہے ہیں ، وفاقی دارلحکومت میں چند ماہ قبل ہزاروں سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا تھا اب پھر سرکاری ملازمین سڑکوں پر آرہے ہیں اور اس میں عوام کا جم غفیر بھی شامل ہو سکتا ہے اور حکومت کے خلاف ایک تحریک کا ماحول بن سکتا ہے۔
در حقیقت شیشے کے گھر وں میں بیٹھے بیورو کریٹس کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی کیا حالت ہے ، پاکستان میں جو بھی وزیر خزانہ ،آئی ایم ایف ،عالمی بنک ، اور دوسرے غیر ملکی بنکوں سے آتا ہے اسے پاکستان کی غریب عوام کی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی قسط اکھٹی کرنے کی فکر ہوتی ہے ، وزیر اعظم عمران صاحب اکثر یہ کہتے ہیں کہ مجھے مہنگائی کےبارے میں سوچ سوچ کر راتوں کو نیند نہیں آتی اب خالی ایسی باتیں کہہ دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ انتظامی مشینری کو تیز کرنا اور خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں کے خلاف شکنجہ کسنا ہو گا ، بجٹ میں 2020-2021 کے ریونیو ہدف کو بڑھا کر مزید 1230 ارب روپے اضافی ریونیو کا ہد ف مقرر کیا گیا ہے۔
تاجروں اور صنعت کاروں سے نئے ہدف کے مطابق جب ٹیکس وصول کیا جائے گا تو اس کے اثرات بھی آخر کار عام آدمی پر پڑیںگے بجٹ میں زراعت کے شعبے کیلئے مراعات اور تین بڑے ڈیموں داسوں دیامر ، بھاشہ اور مہمند ڈیم کیلئے 91 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو بہت بڑا اور احسن اقدام ہیں ڈیموں کی تعمیر وقت کی اہم ضرور ت ہے ڈیموں کی کمی کا احساس در حقیقت سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب نے دلایا تھا اور ایک تحریک شروع کی تھی ڈیم کی تعمیر کیلئے عوام سے عطیات بھی لئے تھے ، کچھ پیسہ بھی جمع ہوا تھا جو غالباً سپریم کورٹ کے اکائونٹس میں موجود ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے بھی ڈیموں کی تعمیر کیلئے عملی اقدامات کئے ہیں ، جو قابل تحسین ہیں۔
اگر ہمارے ملک میں چند سالوں میں تین ڈیم تعمیر ہو گئے تو ملک میں زراعی انقلاب برپا ہو سکتا ہے ، موجودہ حکومت کو یہ کریڈ ٹ جاتا ہے کہ اس نے موجودہ سیشن میں بڑی تیزی کے ساتھ کچھ اہم قانون سازی بھی کی ہے جس میں آئندہ انتخابات نئے طریقہ کار کے مطابق کرانے کا قانون اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا قانون منظور کیا کم از کم 15 سے20 نئے قوانین کی منظوری دی گئی اور اپوزیشن کی عدم موجودگی کا خوب فائدہ اٹھایا گیا۔
بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے بھی اپنے وطن سے محبت اور عقیدت کا حق ادا کرتے ہوئے زر مبادلہ بھیجنے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور ہر ماہ دو ارب ڈالر پاکستان بھیجے ہیں تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے سے ان کی نہ صر ف حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ انہیں اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا پہلی بار موقع ملے گا۔