• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر ایک ایسا نام جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں لیا جائے تو ایک مسحو ر کن شخصیت کی تصویر ذہنوں میں ابھرتی ہے ـــمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید عالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم ۔21جون 1953میں جب ذولفقار علی بھٹو کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی تو نام بے نظیر رکھا گیا اس نام کا ایک استعارہ میں تبدیل ہونا اور ایک فکر بننا ایک طویل جدوجہد کا نام ہے یہ بے نظیر جدوجہد ہی بے نظیر بھٹو کی سوانح حیات ہے۔ کسی نامور شخصیت کے ہاں پیدا ہونا قابل فخر بات تو ہے مگر بڑی بات تو یہ ہے کہ جو آپ کے تعارف کا باعث ہوں اُن کے نام کو اپنے کردار سے بامِ عروج پر پہنچادیا جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت، آزادی اظہار، مساوات، معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور طبقات کیلئے جدوجہد کی۔

بھٹوخاندان میں بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا لہٰذا بے نظیر بھٹو کی تعلیم کیلئے ایسی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹونے روشن خیالی کا راستہ اپنایا۔ بے نظیر بھٹو ذہین تو بہت تھیں مگر انتہائی حساس بھی تھیں کسی کی بندوق سے مارے جانے والے کبوتر کی موت نے بھی اُنھیں بہت افسردہ کر دیا تووالدہ نے انھیں انسانی تاریخ کی سب سے دلیر خاتون جناب زینب ؓ کے کردار کا سبق دیا جو ہمیشہ کے لئے بے نظیر بھٹو کیلئے مینارۂ نور بن گیا اور اس لا زوال کردار کی چھاپ بی بی کی روح پر لگ گئی۔ جس عمر میں بچیاں پریوں کی کہانیاں سنتی ہیںبے نظیر ان کرداروں سے اپنی روح کو سیراب کرنے لگی۔ والد نے انھیں دنیا کی بہترین درسگاہوں میں علم کے حصول کیلئے بھیجا اور اس کے ساتھ ساتھ خاص تربیت بھی جاری رکھی۔ باپ اپنی بیٹی کو بے نظیر دیکھنا چاہتا تھا اور بیٹی صرف اپنے باپ کے خوابوں کی تکمیل چاہتی تھی۔ باپ عوام الناس سے عشق کرتا رہا۔ کہ یہی رب کائنات کا حکم ہے کہ ’’اگر تم اپنے خالق سے پیا رکرتے ہو تو پہلے مخلوق سے پیار کرو۔‘‘

جب محترمہ اعلیٰ تعلیم کیلئے ریڈ کلف کالج روانہ ہونے لگیں تو بھٹو صاحب نے انہیں کچھ یوں نصیحت کی۔ ’’پاکستان میں بہت کم لوگوں کو تمہارے جیسا موقع میسر آتا ہے تمہیں اس کا پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے اور مت بھولو کے تمہارے بھیجے جانے پر جو خرچہ اُٹھے گا وہ ہماری اپنی زمینوں سے آتا ہے۔ ان لوگوں کی محنت ہے جو خون پسینہ ایک کرکے زمینوں پر کام کرتے ہیں تمہیں ان کا قرض چکانا ہے اور یہ قرض تم چکا سکتی ہو۔ اگر بفضل خدا اپنی تعلیم کو ان لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے پر صرف کرو ‘‘ ۔

بھٹو صاحب کا اپنی بیٹی سے تعلق کوئی عام باپ بیٹی جیسا تعلق نہ تھا یہ رشتہ روحانی اور نظریاتی حد تک بہت گہرا تھا۔ کیا کوئی عام باپ اور بیٹی کبھی مشترکہ جدوجہد کا ایسا عہد بھی کرتے ہیں جیسا ان کے ہاں نظر آتا ہے ’’میں اپنی بڑی بیٹی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں مشکل یہ ہے کہ تم بھی حساس ہو اور تمہاری آنکھوں سے بھی فوراً آنسو گرنے لگتے ہیں جیسے میری آنکھوں سے بھی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ آئو ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کامعاہدہ کر لیں تم ایک متحرک طبیعت کی مالک ہو۔ ایک متحرک انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صحرا کو حدت کے بغیر اور پہاڑوں کو برف کے بغیر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تم اپنی دھوپ کی چمک اور اپنی قوسِ قزح کو باطنی اقداراور اخلاقیات میں تلاش کروگی اور یہیں تمہیں کاملیت کاحصول ممکن ہو گا‘ ہم دونوں قابل تعریف کامیابیوں کیلئے مشترکہ طور پر جدوجہد کریں گے کیا تم تیار ہوکہ ہم اس میں سرخرو ہو جائیں‘‘۔

جب بھٹو صا حب کو تاریخ انسانی کے عین مطابق عوام کی حمایت میں خواص کی طرف سے باغی قرار دیا گیا اور سزا بھی وہی مقدر ٹھہری کہ

موسم آیا تو نخل دار پہ میر

سرِ منصور ہی کا بار آیا

مگر اس سے قبل ہی باپ اپنے عشقِ لازوال کی وراثت قید خانہ سے اپنی بے نظیر بیٹی کو اُس کی 25ویں سالگرہ کے موقع پر منتقل کر گیا۔

’’ایک بد نصیب قیدی باپ اپنی پیاری اور ذہین بیٹی کو خط کے ذریعے سالگرہ کی مبارکباد کیسے دے پائے گا جو اپنے باپ کی زندگی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اور خود بھی پابند سلاسل ہے جو اپنے اور اپنی ماں کے سانجھے دکھ کو جانتی ہے کس طرح محبت سے لبریز جذبات کا پیغام ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتی ہے۔ تمہارے دادا نے مجھے باوقار سیاست سکھائی اور تمہاری دادی سے میں نے غریب کی سیاست سیکھی۔ میری پیاری بیٹی میں تمہیں صرف ایک پیغام دینا چاہتا ہوں یہی تاریخ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر بھروسہ کرو ان کی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خدا کی جنت ماں کے قدموں تلے اور سیاست کی جنت عوام کی قدموں تلے ہے۔ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں جہاں سے میں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘۔

عوام سے عشق کا علم تھامے بے نظیر بھٹو طویل قید کاٹنے کے بعد قریہ قریہ نکلی جدوجہد جاری رہی ۔کوئی غم آ گے بڑھنے سے روک نہ سکا ۔ جدوجہد بھی دریائوں کی مانند آ گے ہی آگے بڑھتی رہی ایک دشمن ختم ہوا تو اپنے بہت سے حواری بصورت وارث چھوڑ گیا۔ کبھی مکمل اقتدار منتقل نہ ہوا کہ خوف رہا کہ کہیں عوام طاقت کا سرچشمہ بن کر مکمل معاشرتی و معاشی مساوات کا نام نہ لے آئیں۔ دختر مشرق کو سازشوں میں گھیرا جاتامگر وہ اپنی دھن میں پکی عوام کے عشق میں مست لوگوں کو روزگار کی صورت میں روٹی کپڑا اور مکان دیتی رہی۔ علم کی شمعیں جلاتی رہی۔ صحت کی نعمت عوام کے دروازوں تک پہنچاتی رہی پھر سازش گھڑی اور نصرت کی آنکھوں کے نور مرتضیٰ کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور بھٹو کو قتل کرکے دوسرے بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا۔ ماں اور بہن کے ہمراہ گھبرو جوان بھائی کا لاشہ دفنایا اور دل کا غم یوں بیان کیا کہ ’’آج گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ہم تین عورتیں تھیں اور ہمارے ساتھ تین قبریں تھیں۔ 17سال میں بھٹو خاندان کے تینوں مرد عوام جمہوریت اور مساوات پر قربان ہو گئے۔‘‘ ان سب کے باوجود جدوجہد جاری رہی۔ دلیر اور غیرت مند خاوند کی جوانی کے 12سال جیل میں گزر گئے۔ بھٹوکی بیٹی اور بلاول کی ماں بچوں کو ساتھ لئے ایک شہر سے دوسرے شہر عدالتوں اور کٹہروں میں پیش ہوتی رہی۔

آج بھٹو کے قاتل کے وارث جب بھٹو کے کارناموں کا ورد کرتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ بے نظیر جدوجہد کا ثمر کیا ہوتا ہے۔ جب بھٹو کی بیٹی کو شہر شہر کٹہروں میں پیش کرنے والوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں کہ ہائے کسی کی بیٹی کو بیٹی سمجھو تو مکافات عمل کا مطلب اور تاریخ کی سچائی سمجھ میں آتی ہے۔ آج بے نظیر بھٹو کے بدترین مخالفین جب بے نظیر بھٹو کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں تاکہ اُن کا اپنا قد بڑھ سکے تو بے نظیر جدوجہد کی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔ بھٹو کی بے نظیر بیٹی آخری سانس تک ملک کے بلاولوں، بختاوروں اور آصفائوں کیلئے جدوجہد کرتی رہی اور اپنا آج ان کے کل پر قربان کرتی رہی کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں لیکن بی بی کی زندگی کا مقصد تو اوروں کے کام آنا تھا۔

تازہ ترین