• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینظیر کیس، پی پی اعلیٰ قیادت کے بیانات تحریر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا،گواہ استغاثہ

راولپنڈی (نمائندہ جنگ) سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں جنرل پرویز مشرف کے وکیل سمیت صفائی کے دو وکلا نے استغاثہ کے آخری گواہ پر اپنی جرح مکمل کر لی جس کے بعد عدالتی وقت ختم ہونے پر مزید سماعت گیارہ مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک راولپنڈی کے جج رائے محمد ایوب خان مارتھ نے گزشتہ روز ساڑھے آٹھ برس پرانے کیس کی سماعت شروع کی تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے بینظیر قتل کیس کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ خالد قریشی کے بیان پر جرح کی۔ دوران جرح وکیل صفائی نے جب استغاثہ کے گواہ سے پوچھا کہ آپ کے مرتب کردہ چالان کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی صورت میں دھمکی آمیز خط لکھا تھا تو آپ نے اس خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ کیوں نہیں بنایا؟ جس کے جواب میں خالد قریشی نے کہا کہ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک نے مجھے وہ خط صرف دکھایا تھا۔ جب گواہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی سربراہی میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی نے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے بیان کو تحریر کیا تھا لیکن اسے عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کی دیگر بڑی قیادت کے بیانات کیوں تحریر نہیں ہوئے؟ خالد قریشی نے کہا کہ اسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کو کس بنیاد پر اس کیس میں ملزم ٹھہرایا گیا، کے جواب میں خالد قریشی نے کہا کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، مرحوم امین فہیم اور امریکی صحافی مارک سیگل کے بیانات اور بینظیر بھٹو کو ملنے والی دھمکی آمیز ای میل پرویز مشرف کو ملزم ٹھہرانے کیلئے کافی تھیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو سنگین خطرات کے بارے حساس اداروں کی رپورٹ ملنے کے باوجود جان بوجھ کر وہ سکیورٹی نہ دی تھی جو کہ سابق وزرا اعظم شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت کو مہیا کی گئی تھی۔ بعض سوالات کے جواب میں خالد قریشی نے کہا کہ جے آئی ٹی پانچ افراد پر مشتمل تھی جس کا میں سربراہ تھا ہر تفتیشی افسر نے مختلف شہروں میں جاکر اپنی حد تک تفتیش کی اور بیان ریکارڈ کئے ان سب کے ساتھ شہر شہر میرا جانا اور تفتیش کرنا ممکن نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی رکن آزاد خان نے امریکہ جاکر مارک سیگل کا بیان قلمبند کیا تھا اس بارے وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ خالد رسول نے سابق صدر پرویز مشرف سے تفتیش کی اور بیان لکھا تھا وہ بھی اپنے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا چکے ہیں لہذا میرے لئے ان کی تفتیش کا جواب دینا ممکن نہ ہوگا۔ جب گواہ سے پوچھا گیا کہ دو گرفتار ملزمان حسنین گل اور رفاقت کب پکڑے گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پانچ جنوری 2008کو حراست میں لیا گیا تھا۔ مزید پنجاب پولیس ہی بتا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ حادثہ کے وقت سابق وزیراعظم کی گاڑی میں سوار صرف بینظیر ہی زخمی ہوکر نشانہ بنیں کیونکہ صرف وہی گاڑی سے باہر نکلی تھیں، دو وکلا کی جرح مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مزید سماعت گیارہ مئی تک ملتوی کردی امکان ہے کہ اس روز باقی وکلا صفائی اپنی جرح مکمل کر لیں گے۔
تازہ ترین