کراچی(اسٹاف رپورٹر)کراچی کی کاروباری اور سول سوسائٹی نے تجاوزات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلوں پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں ، کراچی چیمبر کے صدر شارق وہرہ، آبا دکے چیئرمین فیاض الیاس ، سیلانی ٹرسٹ کے مولانا بشیر فاروقی، آباد کے سابق چیئرمین محسن شیخانی، فردوس شمیم نقوی اور دیگر نے اتوار کراچی پریس کلب میں تجاوزات مہم کے معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمارتوں کو مہندم کرنے کا سلسلہ آگے بڑھا تو نہ جانے کتنی عمارتیں ٹوٹیں گی، شہر میں تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری مکمل بند ہوجائے گی،چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ تمام متاثرین کو سنیں،اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں،ماسٹر پلان نہ بننے کی سزا متعلقہ اداروں کو دی جائے، کاروباری طبقہ اور شہریوں کو سزا نہ دی جائے، کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کا حل نکالا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک کمیٹی کی تشکیل کی اپیل ہے، پریس کانفرنس میں نسلہ ٹاور کے مکین اور پویلین اینڈ کلب اور الٰہ دین پارک کے انتظامیہ بھی موجود تھی۔ آباد کے چیئرمین فیاض الیاس نے کہا کہ کراچی شہر کو بچانے کے لیے آئے ہیں۔غریب لوگ چالیس پچاس سال سے مقیم ہیں۔ہر طرح کی قانونی دستاویزات موجود ہیں۔لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور ریونیو سمیت 17 این او سیز لے کر عمارتیں تعمیر کی گئیں ، اگر عمارتیں غیر قانونی ہیں تو ہمیں سنا بھی جائے۔نقصان اٹھانے والے عوام کو بھی نہیں سنا جارہا۔شہر 54 فیصد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔تعمیراتی صنعت نہ ہوتی تو یہ تناسب 80 فیصد ہوتا۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ چیف جسٹس کے مقاصد نیک ہے، ایس بی سی اے کی جانب سے اگر منظوری دے دی جائے اسکے بعد اعتراض نہیں ہونا چاہئے، کراچی کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں کوئی فارمیلیٹی پوری نہیں ہوتی۔ماضی کی غلطیوں کو ریگولرائز کیا جائے۔متاثرین کے نقصانات کا ازالہ سندھ حکومت سے کرایا جائے۔ ناصر حیات مگوں نے کہا کہ کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کا حل نکالا جائے۔ کراچی کی بہتری کے منصوبوں میں عوام کا فائدہ مدنظر رکھا جائے۔نسلہ ٹاور 1953 کی لیز ہے جو محمد علی سوسائٹی نے کی۔چیف جسٹس سے ایک کمیٹی کی تشکیل کی اپیل ہے۔مولانا بشیر فاروقی نے کہا کہ پاکستان صرف سندھ نہیں، یہاں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔دنیا کے سروے میں کراچی کو یتیم شہر قرار دیا گیا۔نسلہ ٹاور کو ریگولرائز کیا جائے۔اس عمارت کو منہدم کرنا پورے شہر کو منہدم کرنے کے مترادف ہوگا۔ شارق وہرا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو سلام پیش کرتا ہوں جو کراچی کو مافیاز سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہی ہے، کراچی چیمبر سمجھتا ہے کہ شہریوں کی تکالیف سپریم کورٹ سے نہیں ہیں۔تکلیف کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جنہوں نے کورٹ کو غلط معلومات دیں۔محسن شیخانی نے کہا کہ آباد قانونی متاثرین کے ساتھ ہیں۔کوشش کریں گے کوئی عمارت نہ ٹوٹے۔عمارت توڑنے سے زندگیاں برباد ہوجائیں گی، اگر نسلہ ٹاور گرایا گیا تو کراچی میں سرمایہ کاری اور کاروبار بند کردیں گے۔ عبداللہ رفیع نے کہا کہ25سال قبل الٰہ دین پارک کو لیز ملی، فیس کی مد میں کے ایم سی کو کئی کروڑ روپے ادا کیے، 80؍ ہزار بچے سالانہ اس پارک میں آکر خوش ہوتے ہیں، ایسا کوئی اور پارک ہے شہر میں؟ ، ہمیں سنا جائے۔ہمیں سنا ہی نہیں گیا۔چار مرتبہ ہائی کورٹ سے ہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔