سید منیب علی
آج کے جدید دور میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا ماننا یہ ہے کہ چاند اور سورج کو گرہن لگنا ،ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔یہ قصّے کہانیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں جن کی ابتداء ایسے کم فہم افراد نے کی جن کا مقصد لوگوں پر اپنے جھوٹے علم کی دھاک بٹھانا تھا۔یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہا لیکن جیسے ہی سائنسی دور کا آغاز ہوا تو سائنس دانوں نے قمروشمس کو گرہن لگنے کی حقیقی وجہ کی تلاش شروع کردی۔ہم جانتے ہیں کہ زمین سورج کے اور چاند زمین کے گرد گردش کررہا ہے۔ 29 دن کے بعد چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
ہر ماہ چاند اپنے چکر کے دوران سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہے اور اس ہی طرح آدھے چکر میں زمین سورج اور چاند کے درمیان میں ہوتی ہے۔ پھر تو ہر ماہ سورج اور چاند گرہن واقع ہونے چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر سال میں 4 یا 5 گرہن ہوتے ہیں۔ہر ماہ گرہن صرف ایک صورت میں واقع ہوسکتا تھا کہ اگر چاند کا مدار سورج اور زمین کے مدار کے سیدھ میں ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ قمری مدار زمینی مدار سے 5 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا ہے۔ اجسام کے مداروں کے اس جھکاؤ کو فلکیاتی اصطلاح میں ’’اربیٹل اِنکلینیشن‘‘ کہتے ہیں۔
اس طرح یہ دونوں مدار صرف دو مقام پر ملتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ اگر نیا چاند (جب چاند سورج اور زمین کے بیچ ہوتا ہے) ان جگہوں پر پیش آئے تو وہ سورج گرہن ہوگا اور اسی طرح پورا چاند (جب زمین سورج اور چاند کے بیچ ہوتی ہے) ان جگہوں پر پیش آئے تو وہ چاند گرہن کا باعث بنے گا۔ ان دونوں مقام کو فلکیاتی اصطلاح میں ’’نوڈز‘‘ یعنی دونوں مداروں کی ملاپ کی جگہ کہا جاتا ہے۔
یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ سائنسدانوں کو پہلے سے کس طرح پتا چلتا ہے کہ چاند یا سورج گرہن زمین پر ان مقامات پر دیکھا جا سکے گا اور اس وقت دیکھا جائے گا۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم ریاضی کی مدد سے باآسانی معلوم کر سکتے ہے کہ چاند، سورج، سیارے اور ستارے اس وجہ سے اپنے مدار میں کدھر موجود ہیں۔ لیکن 1503 میں امریکا کے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا۔
30 جون 1503 کو امریکا کو دریافت کرنے والے کرسٹوفر کولمبس اپنے چوتھے امریکی سفر میں جمیکا، جو کہ مشرقی امریکا میں ایک جزیرہ ہے، میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھنسے ہوئے تھے ،کیوں کہ ان کی کشتیوں کو سمندری کیڑوں نے چھلنی کردیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے انہیں 6 مہینوں تک کھانے کے ساتھ ساتھ رہائش بھی فراہم کی لیکن اس کے بعد ایک دم سے انہوں نے حالات تنگ کردیے۔
چوں کہ کرسٹوفر ایک ملاح بھی تھے۔ لہٰذا وہ اپنے ساتھ جنتری بھی لے کر چلتے تھے، جس کی مدد سے اس وقت کے ملاح ستاروں سے وقت اور سمت کا تعین کرتے تھے۔ اس جنتری کی مدد سے کرسٹوفر نے حساب لگایا کہ جلد ہی مکمل چاند گرہن آنے والا ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے عام عوام میں اس بات کا اعلان کردیا کہ تمہارا خدا تم لوگوں کی اس حرکت سے بہت ناراض ہے اور وہ اپنے غصے کا اظہار یکم مارچ، 1504 کو چاند کی صورت میں بدلاؤ لا کر کرے گا۔29 فروری کی رات غروب آفتاب کے بعد تمام لوگ اکھٹے ہوئے اور چودویں کے چاند کو تیز چمکتا ہوا دیکھنے کے بجاے سرخ گیند نما دیکھا تو وہ سب ڈر گئے اور کرسٹوفر کے تابع ہوگئے۔
اس کو کرسٹوفر کی خوش قسمتی ہی کہیں گے کہ انہوں نے قدرت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جان بچائی لیکن ایسے ہی واقعات کی وجہ سے بہت سی دوسری منگھڑت باتیں سامنے آئیں،مگر سورج گرہن کے وقت بنا کسی فلٹر کہ عام آنکھ سے سورج کی طرف دیکھنے سے آنکھیں ہمیشہ کے لئے ضائع ہو سکتی ہیں۔لہٰذا سورج گرہن کو دیکھنے کے لئے فلٹر کا استعمال بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثر لوگ ویلڈنگ کا شیشہ یا ایکس رے کا کاغذ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ خطرناک ہے اور اس سے آنکھوں کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جولائی اور اگست 2018 میں 2 سورج گرہن اور ایک چاند گرہن واقع ہواتھا۔ 13 جولائی کو جزوی سورج گرہن واقع ہوا جو کہ انٹارٹیکا اور جنوبی امریکا کے علاقوں میں دیکھا گیا۔ 2018 ء میں رونما ہونے والے چاند گرہن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گرہن 6 گھنٹے اور 4 منٹ طویل تھا اور اسی کے ساتھ ہی یہ گرہن اس صدی کا سب سے طویل چاند گرہن تھا۔اس کے علاوہ اُسی رات آسمان میں چاند کے علاوہ سیارہ مریخ بھی قابل دید تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ سورج کے گرد تمام سیاروں کے مدار گول نہیں ہیں بلکہ بیضوی شکل کے ہیں۔
کسی سیارے کا اپنے مدار میں زمین سے قریب ترین فاصلے پر آجانے کو فلکیاتی زبان میں ’’اپوزیشن‘‘ کہتے ہیں۔ مریخ کی طرح مئی میں سیارہ مشتری کی بھی اپوزیشن ہوئی تھی۔ویسے تو ہم آج کل اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں سے کچھ وقت نکالیں اور قدرت کو ملاحظہ کریں جو کہ نت نئے انداز لئے ہے۔ اس سے نہ صرف جسمانی اعصاب کو راحت ملے گی بلکہ دلی تسکین بھی حاصل ہوگی۔
سال میں متعدد بار چاند اپنے مدار میں اس حالت میں آ جاتا ہے کہ زمین سورج اور چاند کے عین بیچ میں آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے چاند پر سورج کی ذرا بھی روشنی نہیں پڑتی۔ نتیجتاً اس کی سطح تاریک ہو جاتی ہے لیکن پھر چاند سرخ کیوں دکھائی دیتا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی جب زمینی فضا میں سے گزرتی ہے تو نیلی روشنی کی نسبت لال رنگ کی روشنی زیادہ مڑ جاتی ہے اور چاند جزوی چاند گرہن کے وقت لال اور پھر مکمل چاند گرہن کے وقت پورا سیاہ ہو جاتا ہے۔