کشمیری حرّیت پسند رہنماؤں ، کارکنوں پر ظلم و جبر کوئی نئی بات نہیں ۔ بلاشبہ، آزادی کی تحریک قید و بند کی صعوبتوں کے بغیر آگے نہیں بڑھتی کہ ہر تحریک کو مدّو جزر، نشیب و فراز اور خوشی و غمی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ تحریکِ آزادی جہدِ مسلسل کا نام ہےاوراس کے لیےغاصب قوّت سے نبرد آزما ہونا یقینی امر ، تو یہی صورتِ حال جمّوں و کشمیر کی تحریکِ آزادی اور اس سے وابستہ رہنماؤں ، کارکنوں کو بھی در پیش ہے۔
یوں تو کشمیری، تحریکِ آزادی کے آغاز ہی سے قید وبند کی صعوبتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن 1990ء کے عشرے میں جب اس تحریک میں تیزی آئی تو کشمیریوں پر بھارت کی تعذیب کے گویا ایک نئے دَور کا آغاز ہوگیا۔ کشمیری حرّیت پسندوں سے نہ صرف جمّوں و کشمیر کی جیلیں بھردی گئیں، بلکہ ریاست سے باہر، بھارت کی جیلوں میں بھی ان کی بڑی تعداد کو قید کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
’’کشمیر میڈیا سروس‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مقبوضہ جمّوں و کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں تین ہزار سے زایدحرّیت رہنما اور کارکنان قید ہیں۔صفِ اوّل کی قیادت میں شامل شخصیات میں سیّد علی گیلانی 2010ء سے مسلسل نظربند ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی وقتاً فوقتاً نظر بندی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح محمّد یاسین ملک، شبّیر احمد شاہ ، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور آسیہ اندرابی بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یاد رہے،بیش ترمرکزی رہنماؤں کی عُمریں زیادہ ہیں اور وہ صحت کےمتعدّد مسائل کا بھی شکار ہیں۔
’’تحریکِ حرّیت جمّوں و کشمیر‘‘ کے چیئرمین ،محمّد اشرف صحرائی بھی ان ہی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جو مئی 2021ء میں دورانِ حراست انتقال کرگئے۔ذرا سوچیے کہ محمّد اشرف صحرائی 77 سال کی عُمر میں جمّوں کی اودھم پور جیل میں محبوس تھے، جب کہ گزشتہ برس مئی2020ء میں ان کے صاحب زادے ،جنید صحرائی نے آزادی کے سفر میں جامِ شہادت نوش کیا۔ ابھی اشرف صحرائی جواں سال بیٹے کی موت کا غم بھی نہ بھول پائے تھے کہ جولائی2020ء میں انہیںکالے قانون، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت حراست میں لےلیا گیا۔ عالمی وبا کووِڈ-19 کی لہر کے دوران ضعیف العمری کے باوجود یہ بزرگ سیاسی قیدی، محض حقِ آزادی مانگنےکی سزا بھگت رہے تھے۔
اشرف صحرائی کی وفات کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ طبیعت کی ناسازی کے باوجودنہ صرف انہیں جیل میں قید کیا گیا بلکہ علاج معالجے کی مناسب سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑی اور آکسیجن کا مسئلہ درپیش ہوا، تو آخری وقت میں اسپتال منتقل کیا گیااور وہاںوہ داعی اجل کو لبّیک کہہ گئے۔ ان کے ساتھ رواں رکھے گئے اس ناروا سلوک پر معروف حرّیت رہنما، سیّد علی گیلانی نےاپنے بیان میں کہا کہ ’’قید و بند کی صعوبتیں صحرائی صاحب کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی، جس راہ کے وہ مسافر تھے، اس پر تو عُمریں اسی دشت کی سیّاحی میں گزر جاتی ہیں، لیکن جس طرح ظالمانہ اور سفّاکانہ طور پر دورانِ حراست انہیں علاج معالجے کی سہولت تک سے محروم رکھا گیا، اس سے اس بات میں کسی شک کی کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ ان کی موت، موت نہیں، زیرِ حراست قتل ہے۔ جس کے لیے بھارتی حکام براہِ راست ذمّے دار ہیں‘‘۔
تحریکِ حرّیتِ جمّوں و کشمیر کے کنوینئر، غلام محمّد صفی کا کہنا ہے کہ ’’ محمّد اشرف صحرائی کا پورا خاندان جماعتِ اسلامی جمّوں، کشمیر سے وابستہ رہا ہے اور ان کے خاندان کے نصف درجن سے زاید افراد تحریکِ آزادی کے دوران شہادت پاچُکے ہیں۔‘‘ صحرائی صاحب جماعت کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چُکے ہیں۔
انہوں نے بدنامِ زمانہ اندرا عبداللہ ایکارڈ1975ء کے بعد شیخ عبداللہ کے خلاف جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے گاندربل حلقۂ انتخاب سے الیکشن لڑ کر اپنے عزم و حوصلے کا اعادہ کیا۔ اشرف صحرائی ابتدا ہی سے قید و بند کی سختیاں جھیل رہے تھے۔ ایک موقعے پر انہیں جیل سے ایڈوائزری کاؤنسل کے جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نےپوچھا ’’آپ کو اپنی صفائی میں کیا کہنا ہے؟‘‘صحرائی صاحب نے جواب دیا’’ فیصلہ میز پر آپ کے سامنے پڑا ہے،میرے بیانِ صفائی سے یہ کتنا صاف ہوسکےگا؟لہٰذاآپ اسے پڑھ لیں۔مَیں صرف اتنا کہوں گا؎میری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نو کی…یہ سحر تمہیں مبارک، جو ہے ظلمتوں کی ماری۔
محمّد اشرف صحرائی تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ہراول دستے کے سپاہی تھے۔ 1987ء کے ریاستی انتخابات میں بھی انہوں نےمسلم متّحدہ محاذ کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ 1990ء میں جب درجن بھر حرّیت پسند جماعتوں نے”تحریکِ حریّتِ کشمیر“ کی بنیاد رکھی ،تو اشرف صحرائی اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
اسی طرح 2004ء میں جب سیّد علی گیلانی نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کومنظّم کرنے اور مکمل یک سوئی پیدا کرنے کی خاطر حکمتِ عملی کے تحت جماعت اسلامی کی رکنیت چھوڑ کراپنی تنظیم ”تحریک ِحرّیتِ جمّوں و کشمیر “قائم کی تو اشرف صحرائی بھی ان کے ہم رکاب تھے اور بطور سیکرٹری جنرل ذمّے داریاں نبھاتے رہے۔ یہاں تک کہ 2018ء میں انہیں تحریکِ حرّیت کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔
غلام محمّد صفی کے مطابق جب اشرف صحرائی کو اودھم پور جیل میں مقیّد کیا گیا تو وہ بیمار تھے۔ایک موقعے پر انہوں نے اپنے بیٹے سے واضح الفاظ میں کہاکہ”میری رہائی کی کاوشوں میں اپنا وقت ضایع نہ کریں،مجھے لگتا ہے کہ یہ مجھے یہاں مارنے کے لیے لائے ہیں“۔ اشرف صحرائی حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذ کی ہم آہنگی لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔
انہوں نے اپنے بیٹے جنید صحرائی کی عسکری جدّوجہد میں شمولیت کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی شہادت پر جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا انہیں افسوس اور دکھ ہے کہ اپنے بیٹے کی میّت کا آخری دیداربھی نہ کرسکے؟‘‘ تو صحرائی صاحب نے انتہائی پُر سکون انداز میں جواب دیا، ’’نہیں! افسوس اور دُکھ کس بات کا؟ عن قریب ہم ایک دوسرے سے جنّت میں ملاقات کریں گے‘‘۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مئی 2020ء میں ماہِ رمضان میں جنید صحرائی شہید ہوئے، تو ایک سال بعد اسی ماہِ مبارک میں والد بھی سفرِآخرت پر روانہ ہوگئے۔
مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی حرّیت قیادت جس طرح ایک عرصے سےپابندِ سلاسل ہےاور اس پر تیس سال پرانے مقدمات کھولے جار ہےہیں یا دہشت گردی میں مالی اعانت (Terror Financing) اور منی لانڈرنگ جیسے بے سروپا الزامات لگائے جا رہے ہیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیری حرّیت قائدین جیلوں سے رہا نہ ہونے پائیں۔ افسوس ناک طور پر ان محبوس قائدین کے اہلِ خانہ کی جانب سے ان کے صحت کے حوالے سے مسلسل خدشات کے اظہار کے باوجود اس جانب کوئی توجّہ نہیں دی جا رہی۔ اس تناظر میں سیّد علی گیلانی کا کہنا ہے کہ ’’کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے متعلق اگرچہ بے اطمینانی ہمیشہ ہی سے موجود رہی ہے۔
تاہم، کورونا کی وبا کے بعد سے یہ بے اطمینانی اب انتہائی تشویش میں بدل چُکی ہے اور کشمیری قیدیوں سے متعلق بھارتی حکمرانوں کا عمومی رویّہ دیکھتے ہوئے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ وبا کی آڑ میں بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں، خاص طور پر قائدین کو نشانہ بناکر انہیں راستے سے ہٹانے کی ناپاک کوششیں شروع کی جا چُکی ہیں‘‘۔
یقیناً یہ ایک پریشان کُن صُورتِ حال ہے اور اس جانب عالمی برادری کی توجّہ ضرور مبذول کروانی اور بھارت کے ظالمانہ رویوں کا راستہ روکنا ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہوناچاہیے۔ کہ بقول غلام محمّد صفی ’’ قائدین کی صحت کے حوالے سے جو خبریں آرہی ہیں ،وہ پریشان کُن ہیں، ان کا تدارک محض مذمّتی بیانات سے نہیں،جارحانہ سفارت کاری ہی سے ممکن ہے۔ ورنہ جیلوں سے کشمیریوں کی لاشیں ہی ملتی رہیں گی اور ہمیں فاتحہ خوانی سے فرصت نہیں ملے گی‘‘۔