کراچی (سید محمد عسکری ) سندھ میں اگست سے شروع ہونے والےنئے تعلیمی سال میں تقریبا ایک ماہ باقی رہ گیا ہے مگر بازار میں جماعت اوّل تا 12ویں جماعت کی کتابیں دستیاب ہی نہیں ہیں اردو بازار کے کتب فروش حضرات کے مطابق رواں سال 2021میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نئے سال کی ایک کتاب بھی بازار میں دستیاب نہیں ہے جب کہ اگست سے نئے تعلیمی سال کاآغاز ہوجائے گا اور تدریس شروع کردی جائے گی۔ اردو بازار کے ایک دکاندار کے مطابق والدین نے کتابوں کے حصول کے لئے اردو بازار کے چکر لگانے شروع کردیئے ہیں کیوں کہ کچھ اسکولوں مین امتحانات ہوچکے ہیں اور طلبہ اگلی جماعتوں میں ترقی بھی پاچکے ہیں مگر ہم ان کو نئی کتابیں دینے سے قاصر ہیں۔ جنگ کو معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ماہ سندھ ٹیسکسٹ بک بورڈ میں19 گریڈ کے افسر پرویز بلوچ کو چئیرمین مقرر کیا گیا تھا مگر تاحال انھوں نے بازار کی کتب کی چھپائی کے سلسلے میں پبلیشرز کو ورک آڈر نہیں دیا ہے ورک آڈر کے اجراء میں جتنی تاخیر ہوگی اتنی تاخیر سے کتابیں بازار میں دستیاب ہوں گی۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں چئیرمین اگر چہ نئے ہیں تاہم سیکریٹری حفیظ اللہ کے ساتھ ان کی ورکنگ ریلیشن نہیں بن پائی ہے حفیظ اللہ جو بنیادی طور پر کالج کے اسٹنٹ پروفسیر ہیں اور طویل عرصے سے کالج میں پڑھانے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر تعینات ہیں۔ ایک پبلیشر نے جنگ کو بتایا کہ ہماری پہلی ترجیح جماعت اوّل تا دہم مفت درسی کتب کی چھپائی پر مرکوز رہی اور ہم وہ سابق چئیرمین احمد بخش ناریجو کے دور میں چھاپ چکے ہیں اب اگلا مرحلہ بازار کی کتابیوں کا ہے جس کے لئے ہم چھپائی کے منتظر ہیں۔ جنگ نے نئی درسی کتب کی عدم دستیابی پر خود اردو بازار کا دورہ کیا تو والدین اور طلبہ کتابوں کے حصول میں نظر آئے۔ نئی کتابوں کی عدم دستیابی کے باعث لوگ پرانی اور ان کی فوٹو اسٹیٹ کاپی خریدنے پر مجبور تھے تاہم کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی کتب بازار میں موجود تھیں۔ درسی کتب فروش فاروق بھائی نے جنگ کو بتایا کہ نویِں دسویں کی نئی کتابیں تو دور کی بات پرانی کتابیں بھی دستایاب نہیں ہیں دور دراز سے آنے والوں کو بہت مایوسی ہوتی ہے ایک تو ان کے کرائے کی مد میں 500 روپے خرچ ہوجاتے اور پھر انھیں کتابیں بھی نہیں ملتی ہیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چئیرمین پرویز بلوچ نے فون نہیں اٹھایا انھیں وٹس اپ بھی کیا مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔