70ء کی دہائی میں پاکستانی سینما میں جب کلر فلموں کا دور شروع ہوا، تو بہت سی معیاری، رُومانی، میوزیکل اور معاشرتی فلموں کے نئے تجربات نے فلم بینوں پر ایک سحر طاری کر دیا، اُسے باکس آفس کا سنہرا دور کہا جاتا ہے، جب نہ صرف اُردو بلکہ دیگر علاقائی زبان میں بننے والی فلموں نے بھی باکس آفس پر شان دار کامیابیاں حاصل کیں۔ کلاسیک سینما میں آج جس فلم کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ ہفتہ 20نومبر عیدالفطر 1971ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ وہ فلم تہذیب تھی، جس کے میوزیکل اور فیملی بیس اسٹوری نے ہر طبقۂ فکر کے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔ کراچی کے ریوالی سینما پر یہ فلم مسلسل 20 ہفتے چلی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم نے 58ہفتے مکمل کر کے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔
فلم کی مکمل کاسٹ میں رانی، شاہد، عالیہ، زاہد خان، تمنّا، رنگیلا، ناصرہ، لہری، زمرد، نذیر بیدی، گوتم، یوسف محسن، اسلم پرویز، فضل حق، الیاس کاشمیری اور صبیحہ خانم کے نام شامل تھے، جب کہ پروڈیوسر صفدر مسعود اور حسن طارق تھے۔ حسن طارق اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے ابراہیم جلیس کی لکھی ہوئی کہانی کو اپنے بہترین ٹریٹمنٹ کے ساتھ سینما کے اسکرین پر پیش کر کے شائقین فلم سے خوب داد پائی۔
خاص طور پر فلم کے مکالمے جو کہ آغا حسن امتثال کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے، عین کہانی اور مناظر کی سچویشن کے مطابق تھے۔ فلم کے بعض مکالموں پر مکالمہ نویس کو بھرپور عوامی داد بھی ملی۔ موسیقار نثار بزمی کا یہ کمال تھا کہ انہوں نے فلم کے مناظر اور سچویشن پر ایسے لازوال نغمات مرتب کیے، جو آج بھی مقبول ہیں۔ بزمی صاحب نے اس فلم کے نغمات میں زیادہ تر ویسٹرن اِنسٹرومنٹ اور آرکسٹرائوں سے بے حد عمدہ اور معیاری کام لیا۔
خاص طور پر فلم کا تھیم سونگ ’’لگا ہے حُسن کا بازار دیکھو‘‘ اس فلم کی کہانی کے تقاضوں کے مطابق لکھا گیا۔ نغمہ نگار سیف الدین سیف نے فلم کے تمام گانوں میں فلم کی کہانی اور سچویشن کو سامنے رکھا، جس میں وہ بے حد کام یاب رہے۔ فلم کے تھیم سونگ کے بول پہلے یہ تھے۔
’’لگا ہے مصر کا بازار دیکھو‘‘جس پر سنسربورڈ نے اعتراض کیا، تو بول اس طرح سے کیے گئے ’’لگا ہے حُسن کا بازار دیکھو‘‘ اس فلم کے ایل پی اور ایس پی ریکارڈ اپنے دور میں اس قدر فروخت ہوئے کہ عوامی ڈیمانڈ کو گرامو فون کمپنیکے لیے پورا کرنا مشکل ہوگیا۔ فلم کے فوٹو گرافر ایم آر احمد (میاں رشید احمد کاردار) تھے، جنہوں نے اپنے شعبے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نغمات اور مکالموں کی صدا بندی کے فرائض سلیم وامق نے انجام دیے، جب کہ فلم کے دلآویز اور دل کش سیٹ حبیب شاہ کے فن آرٹ کے مرہون منت تھے۔
فلم کو ایک مخصوص ربط اور بہترین ردھم کے ساتھ ایڈیٹنگ کے ذریعے منور احمد کی خدمات لی گئیں، جنہوں نے فلم کے ٹیمپو کو ایک خاص انداز دیا، جو فلم بینوں کے لیے دل چسپی کا باعث بنا۔ فلم کے تمام اداکاروں کے میک اَپ کے لیے نذیر احمد نے بہت اچھا کام کیا۔ خاص طور پر رانی کے دل کش اور خُوب صورت میک اَپ میں انہوں نے کمال کر دیا۔
رانی کے موڈرن ڈریسز ماضی کی مقبول رقاصہ و اداکارہ رخشی نے اپنے بوتیک فنٹاشیا میں تیار کیے۔ عالیہ، زمرد اور صبیحہ خانم کے ڈریس بھی خُوب صورت تھے۔ فلم میں رقص کا شعبہ بھی بڑا اہم ہوتا ہے، اس سلسلے میں ماسٹر حمید چوہدری نے رانی، عالیہ اور زمرد کے رقص اپنے فن کمال سے کمپوز کروائے اور عوام کے ہے جمالو والے رقص پر خود رقص کرنے پر مجبور کر دیا۔
فلم کی مختصر کہانی یہ تھی۔ دادی امّاں (صبیحہ خانم) ایک دولت مند جاگیردار گھرانے کی سربراہ ہیں، جو اپنے خاندان میں مشرقی تہذیب و تمدن کی سختی سے پابندی کرواتی ہیں، مگر ان کے دو نالائق بیٹے مشکور (لہری) اور ممنون (رنگیلا) اپنی بیویوں کی وجہ سے مغربی تہذیب کے دل دادہ ہیں۔ مشکور کی بیٹی نصرانی (عالیہ) ایک آزاد خیال اور موڈرن لڑکی ہے۔ ممنون کا بیٹا جاوید (شاہد) جسے دادی جان نے اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجا تھا اور اسی جاوید سے دادی نے چاندنی (رانی) کی منگنی طے کی ہوئی تھی۔ چاندنی ایک سیدھی سادھی معصوم مشرقی لڑکی ہے۔ جب جاوید لندن سے آتا ہے، تو چاندنی کی سادگی اور مشرقی تہذیب سے اُسے نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ دادی کے فیصلے سے انکار کرتا ہے، مگر جائیداد سے عاق ہونے کے خطرے سے ممنون اپنے بیٹے جاوید کا نکاح چاندنی سے کروا لیتا ہے۔
شادی کے بعد جاوید چاندنی کو ملک لے جاتا ہے۔ چاندنی اس بے ہودہ تہذیب اور ملک کی بے باکیوں کو دیکھ کر دادی سے آ کر شکایت کرتی ہے۔ جاوید چاندنی کو چھوڑنے کی دھمکی دیتا ہے۔ دادی چاندنی کو لے کر پہاڑ پر جاتی ہے، جہاں وہ جاوید کو ایک نئے رُوپ میں ملتی ہے، جسے دیکھ کر جاوید اس کا دیوانہ ہو جاتا ہے، اس طرح چاندنی اپنے شوہر کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے چلتے مغربی تہذیب کی عمل پیرا ہو کر اپنی سادگی اور شرم و حیا کھو دیتی ہے۔
کلب کا مالک محسن (اسلم پرویز) ایک عیاش شخص ایک روز چاندنی کو اپنی زیادتی کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ اپنی عصمت لٹا کر جب وہ اپنے گھر پہنچی تو جاوید کو احساس ہوا، اس نے خود چاندنی کو بربادی اور تباہی کے راستوں کی طرف دھکیلا تھا۔
جاوید نے غیرت کے مارے محسن کا خون کر دیا اور جب وہ چاندنی سے معافی مانگنے گھر آیا، تو اس کی چاندنی اندھیروں میں کھو کر ہمیشہ کے لیے گم ہو چکی تھی۔ جاوید یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو جاتا ہے اور وہ پاگل خانے میں چلّاچلّا کر گاتا ہے۔
ہوس نے آگ بھڑکائی ہوئی ہے
عجب دیوانگی چھائی ہوگئی ہے
جہاں تک راہ میں بچ کر چلے گا
انہیں شعلوں میں آ کر تو جلے گا
اس فلم میں کردار نگاری میں سب سے اوّل رانی کا نام آتا ہے، جنہوں نے اپنے کرادر میں اس قدر فطری اور دل کش اداکاری کی ہے کہ اُس کی مثال نہیں ملتی۔ سینئر اداکارہ صبیحہ خانم نے دادی جان کے یادگار کردار کو بڑی عمدگی سے ادا کیا ہے۔ اداکار شاہد کی بہ طور سولو ہیرو پہلی فلم تھی ، جس میں شاہد نے کسی بھی منظر میں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ پہلی بار بہ طور ہیرو کام کررہے ہیں، بلکہ وہ ایک منجھے ہوئے اداکار معلوم ہوئے۔ شاہد کی اسی صلاحیت نے اُسے اُس دور کے صفِ اوّل کے اداکاروں کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے بعد اب لوگ شاہد کا نام بھی لینے لگے۔ عالیہ نے اپنے مختصر کردار میں بہت ہی زبردست اداکاری اورڈانسز سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ لہری اور رنگیلا کی برجستہ مزاحیہ اداکاری نے بھی اس فلم کے حُسن کو دوبالا کر دیا، جب کہ اسلم پرویز کی منفی کردار نگاری نے فلم کے مزاج میں بہت زیادہ چاشنی اور دل چسپی پیدا کی۔
فلم کے گانوں کی تفصیل کچھ یوں تھی۔
(1) آج میرا دل جھوم جھوم کر گاتا ہے (سنگرز احمد رشدی، رونا لیلےٰ کورس)، (فلم بندی عالیہ، زاہد خان، رنگیلا، لہری)
(2) گھر آنے والا ہے (سنگر رونا لیلےٰ) (نغمہ نگار مسرور انور، فلم بندی رانی) (3) ہے جما لو ہمیں اپنا بنا لو (سنگر رونا لیلےٰ) (فلم بندی رانی، عالیہ)(4) کیسا جادو گر دلبر (سنگر رونا لیلےٰ) (فلم بندی زمرد)
(5) آ ہم کیوں رہے اکیلے (سنگر رونا لیلےٰ) (فلم بندی رانی)حُسن کا بازار (سنگر نورجہاں، مہدی حسن) (فلم بندی رانی، شاہد) (7) تونے کیا شے مجھے پلا دی (سنگر رونا لیلےٰ) (فلم بندی رانی)