کسی بھی ملک کی ترقی اور اس کے نوجوانوں کے ذہنی ارتقا کا اندازہ وہاں کی تعلیمی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم صرف درسی کتب اور لیکچر تک محدود نہیں ،بلکہ ہم نصابی سرگرمیاں بھی اس کاحصہ ہوتی ہیں، جن سے طلباء کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشوونما ہو تی ہے۔
نیز طلباء میں راہنمائی کی صفات، بلند کرداراور مضبوط اخلاق جیسی صفاتیں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ طلباء کو طوطے کی طرح اسباق رٹانے کے بجائے بہترین ذہنی صلاحیتوں کے حامل بنایا جانا ضروری ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں نوجوانوں کے لئے لازم و ملزوم ہیں، ان سے نوجوانوں کو ہمت و حوصلہ اور محنت کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔
تعلیمی ادارے ایک مربوط نظام کے تحت قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ،جن میں مقررہ نصاب کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کروانا اور امتحان لے کر اگلی جماعت میں ترقی دینا شامل ہے۔ یہ سلسلہ تعلیمی اداروں میں سیڑھیوں کی مانند جاری ہے ۔ تعلیم کے ساتھ مختلف سرگرمیاں بالکل ایسے ہی ضروری ہیں جس طرح کسی نخلستان کے لیے پانی ،جس کے بغیر وہ سر سبز و شاداب نہیں ہوسکتا۔ تعلیم کا مقصد طلبا ءکومحض کتابی کیڑا بنانا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کا ایک باکردار اور کار آمد شہری بھی بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اس طرح طلباء مختلف مقابلوں میں حصہ لے کر، اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کے جب کوئی نوجوان ملازمت کے لیے درخواست دیتا ہے تو تعلیمی سرٹیفکٹ کے ساتھ مختلف سرگرمیوں یعنی مختلف کھیلوں، اسکائوٹنگ اور اسکول، کالج کے میگزین میں حصے لینے پر ملنے والے سرٹیفکٹ بھی لگاتا ہے، تاکہ اضافی کارکردگی بھی سامنے آسکے۔ یہ وہ صلاحیتیں ہوتی ہیں جو نوجوان کی شخصیت و کردار کو مضبوط کرتی ہیں۔ طلبا اسکول ،کالج میں تقریری مقابلوں میں حصہ لے کر مستقبل کے اچھےمقرربن سکتے ہیں اور سیاست دان یا معاشرے کا مفید کارآمد ترجمان بن کر معاشرے کیے پیچیدہ مسائل کے لئے آواز بھی بلندکر سکتے ہیں۔
ان سرگرمیوں کا ایک مقصد طلباء کو اپنے ادب اور ثقافت سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ اس کے لئے تعلیمی اداروں میں ورائٹی پروگرام، بیت بازی اور مضمون نویسی کے مقابلوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء میں ادبی ذوق اُبھارا جاسکےاور انہیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے۔ اس کے علاوہ اسکائوٹنگ کی تربیت سے طلباء میں نظم و ضبط کی پابندی کی عادت پڑتی ہے، اگر ملک پر خدانخواستہ کوئی ناگہانی آفت آجائے تو اسکاؤٹ عوام کی مدد کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
لہٰذا طلباء دوران تعلیم کالجوں میں اسکائوٹنگ میں شمولیت حاصل کریں۔ طلباء کو مطالعاتی دوروں پر بھی لے کر جانا چاہیے، اس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں ہفتہ صفائی کا بھی اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ طلباء کواپنے علاقوں اور وطن کی دیکھ بھال کی تعمیر و ترقی کی عادت پڑسکے، جبکہ اپنے تعلیمی اداروں کی صفائی کے ذریعے امادرِ علمی کی عزت و احترام اور خوبصورتی کا احساس پیدا ہو، اس کے ساتھ شجرکاری مہم میں بھی طلباء بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پودے درخت لگاکر اپنے اسکول و کالج کو آلودگی سے پاک پرفضا مقام بنائیں۔
سوشل میڈیا کا تیزی سے نوجوانوں میں بڑھتا ہوا رجحان اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش نے نوجوانوں کو غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی دور کردیا ہے۔ اس وجہ سے نوجوانوں کا لائف اسٹائل بالکل تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہ طرزِ زندگی ہمارے میدانوں کو غیرآباد کرکے نوجوانوں کےزندگی پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے ۔
اس لئے طلباء کوتعلیم کے ساتھ کھیل کی طرف رغبت دلانا وقت کی ضرورت ہے۔ فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس وغیرہ کے باقاعدہ مقابلوں کے انعقاد سے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑی مدملے گی۔ کھیلوں کے ذریعے نوجوان طلباء اپنے ساتھیوں سے تعاون و ہمدردی، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ و مسابقت میں اعتدال، اطاعت و قیادت اور دھاندلیوں کا مقابلہ اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی تربیت ملتی ہے۔
آج کے جدید دور میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر ہم نصابی سرگرمیاں کافی حد تک محدود ہوگئی ہیں ،جبکہ سرکاری اور تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ طالب علموں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں ۔
طلباء کو ان میں حصہ لینے کا پابند کیا جائے اور کچھ نمبرز امتحانی رزلٹ میں شامل کئے جائیں، تاکہ طلباء نمبرز کے حصول کے لئے اپنی دلچسپی غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف مبذول کریں ۔