• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفارت خانہ پاکستان نیدرلینڈز کے زیر اہتمام ’پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری‘ پر ویبنار

سفارت خانہ پاکستان نیدرلینڈز کے زیر اہتمام 'پاکستان کے انجینئرنگ سیکٹر میں تجارت اور سرمایہ کاری کے موضوع پر ایک آن لائن ویبنار کا اہتمام کیا گیا۔ ویبنار کی میزبانی نیدرلینڈز میں تعینات قونصلر برائے ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ رضوان الحق راؤ نے کی۔

جبکہ ویبنار میں نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے آٹو سیکٹر کے مختلف شعبوں کے ماہرین، خریداروں و مبصرین جبکہ پاکستان سے پاکستان آٹو پارٹس مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے علاوہ پاکستان انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجر برائے پالیسی نے شرکت کی۔

سب سے پہلے سفارت خانے کے چارج ڈی افئیرز اعزاز خان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ویبنار کے شرکاء کو حکومت پاکستان کی اس سیکٹر میں اضافے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ اپنے ابتدائی اور بعد ازاں اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں آٹو پارٹس سیکٹر میں تجارت کا جو حجم آج 800 ارب ڈالر ہے اور 2023 تک جس کے 1 کھرب ڈالر ہونے کے امکانات ہیں، اس میں پاکستان کا حصہ صرف 0.1 فیصد ہے۔

انہوں نے پاکستان کے برآمد کنندگان پر زور دیا کہ دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے انہیں اس شعبے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اشیاء کی قدر میں اضافے کیلئے کام کرنا ہوگا۔

دوسری جانب ویبنار کے نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کاروبار کرنے کیلئے ایک بہترین ملک ہے۔ یہاں کے تاجروں کیلئے بھی یہ موقع ہے کہ وہ یہاں کی ضروریات کے پیش نظر نئی ٹیکنالوجی پاکستان لیجائیں اور کسی کے ساتھ ملکر یا خود اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں موجود ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

قبل ازیں ویبنار کا آغاز کرتے ہوئے میزبان رائو رضوان الحق نے بتایا کہ نیدرلینڈز یورپ میں پاکستانی مصنوعات کی دوسری اور دنیا میں 5 ویں بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستان کی جانب سے نیدرلینڈز کو برآمدات میں 17 اعشاریہ 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور اب اس کا حجم جو 2019-20 میں 944.54 تھا وہ 2020-21 میں بڑھ کر 1113 ملین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں انجینئرنگ سیکٹر میں ہونے والا اضافہ 8018288 سے بڑھ کر 14اعشاریہ 6 ملین ڈالر ہوگیا ہے۔ جبکہ نیدرلینڈز کی جانب سے پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری بھی 159.1ملین ڈالر سے بڑھ کر 269.5 ہوگئی ہے۔ اس طرح نیدرلینڈز پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔

ویبنار میں پاکستان سے شریک پاپام کے سینئر وائس چیئرمین عبدالرزاق گوہر اور آٹو انڈسٹری ایکسپرٹ مشہود خان نے اپنے ناظرین کیلئے پاکستان کے آٹو سیکٹر کا ایک جائزہ پیش کیا۔ عبدالرزاق گوہر نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا آٹو پارٹس سیکٹر سب سے جدید اور تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے ۔ یہاں اس وقت 400 کمپنیاں بہترین کام کر رہی ہیں اور وہ مختلف شعبوں کے بڑے برانڈز کو سامان فراہم کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ پاکستان سے بن کر باہر جانے والے ٹریکٹرز کے 90 فیصد پارٹس ملک کے اندر تیار کیے گئے ہیں۔ پاپام کے سابق صدر اور معروف آٹو پارٹس ایکسپرٹ مشہود احمد خان نے اپنے سیکٹر کا بھر پور انداز میں تعارف کروایا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی کمپنیاں اس وقت دنیا بھر میں 67 ممالک کو اپنا سامان ایکسپورٹ کر رہی ہیں۔

اس سے نہ صرف دنیا کے ان پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے بلکہ اس سے کمپنیوں کے دنیا کی ضروریات کو سمجھنے میں بھی بہتری آرہی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان بہتر اور معیاری مصنوعات تیار کر سکے گا۔ انہوں نے اپنی پریزینٹیشن میں پاکستان میں تیار کی جانے والی مصنوعات اور انہیں تیار کرنے والی مختلف کمپنیوں کا تعارف بھی کرایا۔

آخر میں انہوں نے شرکاء کی جانب سے پوچھے جانے والے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے انتہائی کھلے دل کے ساتھ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے مختلف شعبوں کے بارے میں رائے بھی دی۔

ویبنار کے آخری حصے میں نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے اور پاکستان کے ساتھ تجارت کرنے والے دو افراد ڈان ڈی جونگ اور خیرارڈ وردنباخ نے ویبنار کے شرکاء کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کیے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی نہ صرف مہمان نواز ہیں بلکہ اپنے کام کے ماہر اور اس میں سنجیدہ بھی ہیں۔

مسٹر خیرارڈ نے نشاندہی کی کہ چائنہ کے ساتھ مغربی دنیا کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور معلوم نہیں کب لگنے والے مختلف ٹیکسوں کی وجہ سے اس کی مصنوعات مہنگی یا اس کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نئی منڈی تلاش کی جائے ۔ اس حوالے سے پاکستان کا آٹو پارٹس بنانے کا شعبہ اہم ہے۔

ویبنار سے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جنرل منیجر برائے پالیسی عاصم ایاز نے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کو پاکستان کی نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے پاکستان میں حکومتی پالیسیوں کا ذکر کیا جو اس نے موبائل فون انڈسٹری کو فراہم کی ہیں۔ جس کے نتیجے میں 21 موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں ہی اسمارٹ فون بناکر مقامی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کر رہی ہیں۔

تازہ ترین