• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ایک ایسی چیز ہے ، جو امارت اور غربت کی تفریق کیے بغیر انسان کو جذباتی سانحات سے دوچار کرتی رہتی ہے ؛حتیٰ کہ اس کی موت کا وقت آ جاتا ہے۔ کوئی دولت مند انسان خود کو اس لاعلاج بیماری سے بچا نہیں سکتا، جو اس کے نصیب میں لکھ دی گئی ہو۔انسان نے کتنی ترقی کی، کتنی ایجادات کیں لیکن اس دنیا میں کسی انسان کی دولت اس کے پیاروں کو موت سے بچا نہیں سکتی ۔ جہاں تک غربا کا تعلق ہے ، عمر بھر انہیں پیسنے کے لیے غربت کی چکی ہی کافی ہے ۔ اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالنا ہی اس کا سب سے بڑا چیلنج بن جاتاہے ۔اپنی اپنی قوم کو نجات بخشنے والے سیاسی مدبرین ، محمد علی جناح اور ابرہام لنکن کے چہروں پر صحت ، اولاد اور شریکِ حیات کی طرف سے ملنے والی اذیتیں رقم نظر آتی ہیں ۔آپ نفرت کی آگ بھڑکانے والی اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستان سے علیحدگی کا جشن مناتے ہوئے دیکھیں ۔ پھر یہ دیکھیں کہ کس بے بسی کے عالم میں انہیں قتل کر دیا گیا ۔یہ زندگی ایک ہنڈولے کی مانند ہے ۔ آپ کو ایک بپھرے ہوئے بیل کی پشت پہ سوار کر دیا گیا ہے اور پوری قوت سے وہ آپ کو نیچے پھینک کر کچل ڈالنا چاہتا ہے ۔ آپ نیک ہیں یا بد ، اس سے اسے کوئی غرض نہیں۔ آپ مہاتما بدھ کی زندگی دیکھ لیجیے ۔اذیت کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ محمد علی جیسے لافانی باکسر کو پارکنسن جیسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے ۔آپ آج کے ایک عام انسان کو دیکھ لیجیے ۔کبھی رات گئے آپ ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں جا رہے ہوں اور فٹ پاتھ پرآپ کو ایک خاندان لیٹا ہوا نظر آئے ۔ دل کانپ اٹھتا ہے ۔اگر اس کی جگہ میں ہوتا ؟آپ اگلے روز پھر جائیں، آپ کو وہ خاندان وہیں نظر آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات جتنے بھی تکلیف دہ ہوں، وہ ان میں زندگی گزارنا سیکھ گیا ہے۔

یہ شدید سردی کے ایام تھے، جب ایک تقریب سے واپسی پر اندھیری سڑک پر ایک گدھا گاڑی دیکھی۔ بچوں سمیت ایک پورا خاندان اس پہ سوار تھا ۔ یہ لوگ گنتی کی ان دکانوں اور ہوٹلوں کے باہر کھڑےٹھٹھرتے رہتے ہیں ، جو سرد راتوں میں کھلے رہتے ہیں ۔ گاڑیوں والے ترس کھا کر انہیں کچھ دے دیتے ہیں ۔ یہی ان کی گزر بسر کا ذریعہ ہے۔ان کے مردوں کی اکثریت نشے کی عادی ہوتی ہے اور کوئی کام نہیں کرتی ۔ آپ کو ایک بیوہ نظر آئے گی، جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کمرے میں بند کر کے مردوں کے ساتھ مزدوری پر مجبور ہوگی ۔کبھی پولیو اور کبھی کرونا ، وائرس ہیں کہ ہر طرف پھیلا دیے گئے ہیں۔

آپ صوفیا کے پاس جائیں ۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ زندگی آزمائش کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے ۔ امیر و غریب، مردوزن ، عقل مند اور بے عقل کی تخصیص کے بغیر یہ ساری زندگی آزمائشیں ہی آپ کے سامنے پھینکتی رہے گی ۔ یہ آزمائش اسی وقت ختم ہو گی، جب آپ کی سانس تھم جائے گی۔ درد ختم ہونے کا اور کوئی راستہ نہیں۔

ایسے میں اکثر لوگ ایک سوال کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا نے یہ دنیا اگر آزمائش کے لیے بنائی ہے تو ہم سے تو پوچھا ہی نہیں گیا کہ ہم اس رزم گاہ میں اترنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ آزمائش میں اتارنے سے پہلے کسی بھی انسان سے اس کی رضامندی حاصل کی جائے ۔ اسے اس آزمائش کی نوعیت سے آگاہ کیا جائے ۔ اسے بتایا جائے جیتنے پر کیا ملے گا اور ہارنے پر کیا ہوگا۔ جب وہ راضی ہو جائے تو پھر آزمائش شروع ہو۔ بہت سے لوگ جن کی زندگیاں تلخی ، اذیت اور دکھ سے بھرپور ہیں ، وہ اس دنیا سے تنگ آچکے ہیں ۔ پروردگار نے یہ کیسا فیصلہ کیا کہ انسان کی رضامندی حاصل کیے بغیر ہی اسے میدان میں اتار دیا اور وہ بھی اس قدر اذیت ناک زندگی کے میدان میں ۔ ہے نا عجیب بات۔

اب اس سے بھی زیادہ عجیب بات دیکھیں ۔ وہ سب لوگ جو اس دنیا کی تلخیوں سے مرنے کی حد تک تنگ آچکے ہیں اور خدا سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری رضامندی کے بغیر ہمیں کیوں اس دنیا میں اتارا گیا ، شادیاں کرتے اور بچے پیدا کرتے ہیں ۔ وہ رضامندی حاصل کیے بغیر اس تلخ اور خوفناک دنیا میں اپنی اولاد پیدا کر دیتے ہیں ۔ بھارت میں ساٹھ کروڑ افراد ایسے ہیں ، جن کے گھروں میں بیت الخلا موجود نہیں ۔ دنیا کے وہ کروڑوں افراد جو فٹ پاتھ پہ زندگی بسر کرتے اور ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ، وہ بھی اولاد پیدا کرنے کا فریضہ سر انجام دے کر ہی مرتے ہیں ۔ آپ شام اور افریقہ سمیت دنیا کے جنگ زدہ خطوں میں چلے جائیں ، آپ کو دو دو، تین تین سال کے بچے پھرتے نظر آئیں گے، جب کہ وہاں عشروں سے بھرپور جنگ یا خانہ جنگی جاری ہے ۔ آپ قحط زدہ ممالک میں چلے جائیں ، آپ کو دودھ پیتے بچے نظر آئیں گے ۔سمجھ نہیں آتی کہ اذیت ناک زندگی کا ماتم کرتا انسان بچّے پہ بچہ کیوں پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے دنیا کی آبادی 7.8ارب تک جا پہنچی ہے۔ حالات کا مارا ہوا ہر انسان اپنی موت سے پہلے اپنے جیسے کئی پیدا کر کے انہیں آزمائش کی بھٹی میں جھونک رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خدا سے پوچھتا رہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے کیوں پیدا کیا؟

تازہ ترین