• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ دس دن جو افسوسناک تھے، اذیت ناک تھے، تلخ اور خوفناک تھے، یہ دس دن دس برس کی طرح میں نے اپنے دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ گزارے ہیں۔ دعا ہے کہ ہمارا بدترین دشمن بھی کبھی اس قسم کی قید تنہائی سے دوچار نہ ہو یعنی یہ ایک ایسا عذاب تھا جو کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں ہمیں بھگتنا پڑا تھا۔ یہ دس دن لندن میں ’’ہوٹل کورنٹین‘‘ کے تھے۔ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد غزہ کے مسلمانوں ، جو اسرائیل کی حالیہ بمباری سے متاثر ہوئے تھے، کی امداد کے لئے جانا چاہتے تھے۔ ہم چار افراد اس مقصد کے لئے گزشتہ مہینے کے آخر میں مصر کے شہر قاہرہ پہنچے تاکہ مصر کے راستے غزہ جا کر ریلیف پہنچا سکیں، ہم ایک ہفتہ قاہرہ رہے انہی دنوں برطانوی حکومت نے 8جون کو مصر کو ریڈلسٹ ممالک کی لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کردیا لیکن ہم 6تاریخ کو ہی قاہرہ سے اردن کے شہر عمان پہنچ گئے کیونکہ اردن ایمبرلسٹ میں ہے۔ ہم ایک ہفتہ وہاں بھی مقیم رہے۔ مختصر یہ کہ جب ہم واپس لندن پہنچے تو امیگریشن حکام نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ ہم محفوظ ملک میں رہ کر واپس آئے ہیں ان کے مطابق اگرچہ جب مصر کو برطانیہ نے کورونا وائرس کے ریڈلسٹ ممالک کی لسٹ میں ڈالا تو دو روز پہلے آپ اردن چلے گئے تھے، یہ بھی درست ہے کہ اسرائیل بھی نہ ریڈلسٹ میں ہے نہ ایمبرمیں، لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ بارہ تیرہ روز پہلے آپ مصرمیں تھے لہٰذا آپ ریڈلسٹ ملک سے واپس آئے ہیں۔ امیگریشن کی اس بے تکی دلیل کے ساتھ ہم نے زیادہ بحث نہیں کی کیونکہ وہ اس نکتے پر ڈٹے تھے کہ آپ کو 10دن حکومت کے مقرر کردہ ہوٹل میں رہنا پڑے گا اور ایک بندے کے لئے دس دن کا یہ خرچ 1750 برطانوی پائونڈ ہے۔ ناچار ہمیں ان کی یہ بات ماننا پڑی بلکہ اس بات کا جرمانہ بھی کیا گیا کہ ہم نے لندن آنے سے پہلے ہوٹل کی بکنگ کیوں نہیں کروائی۔

تقریباً چھ گھنٹے ایئر پورٹ پر خواری کے بعد ہمیں ایک بس میں ایک سیکورٹی گارڈ کی نگرانی میں ہیتھرو ایئرپورٹ سے کوئی 28 میل دور ہوٹل پہنچا دیا گیا۔ کوچ سے اترتے ہی یوں لگا جیسے کسی جیل کے صدر دروازے پر پہنچ گئے ہیں، ہمیں اندر لے جایا گیا جہاں پندرہ سے بیس سکیورٹی گارڈ اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے۔ ایک خاتون نے ہم سے مختلف فارم پُر کروائے ۔ ہوٹل میںدس روزہ قیام کے اصول و ضوابط بتائے اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ سکیورٹی گارڈ کے ساتھ ان کے کمروں میں بھیج دیا گیا۔ چنانچہ ’’کورونا کے قیدیوں‘‘ کی ہوٹل میں کورنٹین میں یہ پہلی رات تھی اور پھر اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا سٹریس شروع ہوگیا۔یعنی ہوٹل کورنٹین(Quarantine)کے ضابطے کچھ یوں تھے کہ ان دس روز میں آپ میں سے کوئی ایک دوسرے کے کمر ے میں نہیں جا سکتا، دس روزہ قیام کے دوران ہوٹل کا کوئی ملازم آپ کےکمرے میں نہیں آئے گا اور نہ ہی روم سروس کی جائے گی، بیڈ کی چادریں اگر بدلنی ہیں تو وہ آپ کی ذمہ داری ہے۔کمروں میں پلیٹیں، چمچ وغیرہ موجود ہیں وہ آپ نے خود ہی دھونے ہیں، کوئی چیز اگر چاہیے تو انتظامیہ کو فون کریں وہ کمرے کے دروازے کے باہر دستک دے کر رکھ دے گا‘ آپ ماسک پہن کر اٹھا لیں۔ ہوٹل میں آپ سے کوئی ملاقات کے لئے نہیں آسکتا، کھانا یا کوئی چیز گھر سے منگوائی جا سکتی ہے لیکن اسے لانے والا یہ چیز سکیورٹی کو ہوٹل کے گیٹ پر پکڑا کے چلا جائے گا اور یہ اشیا یا کھانا بھی سکینر میں چیک کیا جائے گا۔ اگر تنہائی سے تنگ آ کر کمرے سے باہر چہل قدمی یا ہوا خوری کے لئے جانا چاہیں تو سکیورٹی سے درخواست کی جاسکتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ دس پندرہ منٹ میں آ کر آپ کو کمرے سے اپنی نگرانی میں لے جائے، اس کے لئے ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے، چہل قدمی کے لئے پندرہ سے 20منٹ دیئے جائیں گے اور پھر گارڈز کی نگرانی میں آپ کو کمرے میں پہنچا دیا جائے گا۔

ہمارے ہوٹل میں تقریباً تین سو کے لگ بھگ لوگ موجود تھے اسی طرح برطانیہ کے سینکڑوں ہوٹلز میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوٹل کورنٹین میں تھے، ہمیں بتایا گیا انگلینڈ میں ہوٹل کی کورنٹین کے لئے حکومت نے جو ہوٹل مختص کئے ہیں وہاں کوئی عام شخص یعنی کورنٹین کیے جانے والے کے علاوہ کوئی نہیں آکے رہ سکتا، یہاں وہی لوگ آتے ہیں جنہیں کورنٹین کرنا ہوتا ہے۔ کورنٹین کے دوسرے روز ’’این ایچ ایس‘‘ نیشنل ہیلتھ سروسز کی طرف سے کمروں کے اندر ہی آپ کا کورونا ٹیسٹ ہوگا، آپ کو کٹ دے دی جائے گی اور خود ہی ٹیسٹ کرکے آپ اسے کمرے کے باہر رکھ دیں گے، اس کا رزلٹ اگلے روزآ جائے گا۔ اگر تو یہ ٹیسٹ نیگٹو یعنی درست ہے تو پھر آپ کا ایک اور ٹیسٹ آپ کے قیام کے آٹھویں روز ہوگا اگر وہ بھی درست ہے تو پھر10راتیں قیام کے بعد گیارہویں روز گھر جایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آٹھویں روز ٹیسٹ پازٹیو آگیا تو اس کا مطلب ہے آپ کو کورونا ہو چکا ہے لہٰذا اب آپ کو مزید 10روز یہاں قیام کرنا پڑے گا، لیکن ان اگلے دس روزکے قیام کا خرچ حکومت اٹھائے گی۔ ہوٹل میں ساری سیکورٹی ہوٹل والوں کی نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے تعینات کی گئی ہوتی ہے اور یہ آپ پر اس قدر کڑی نظر رکھتی ہے کہ آپ خود کو کسی سخت ترین جیل کا قیدی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں،یہ سکیورٹی والے ہوٹل کے اندر باہر بلکہ ہر فلور کے ہر کمرے پر نظر رکھتے ہیں جونہی آپ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر جھانکیں گے کسی سیاہ فام کی تیز نگاہیں گھورتی ہوئی نظر آئیں گی، برطانوی حکومت کے تھنک ٹینکس نے بڑی زیرک دماغی سے کورنٹین ہوٹلوں کی سکیورٹی میں جان بوجھ کر صرف سیاہ فام اور برائون افراد کو رکھا ہے، یہاں ایک بھی سفید فام دکھائی نہیں دیتا تاکہ بددعائیں ملیں، جھگڑے ہوں تو انہی پاکستانیوں، بنگلہ دیشی، انڈین اور افریقی لوگوں سے ہوں۔ یہاں بھی انگریز کے دماغ کو داد دینا پڑتی ہے کہ (گورا گورا ای اے)!

انگلینڈ میں کورونا وائرس ہونے کے شبہ میں دھر لئے جانے والوں کے ساتھ ہوٹل کورنٹین میں کس قسم کا انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے زیر نظر تحریر اس کی فقط ایک جھلک یا طائرانہ جائزہ ہے، یہاں اچھا بھلا انسان کس طرح ذہنی مریض بن سکتا ہے یا کسی دوسری موذی بیماری کا شکار ہوسکتا ہےیہ وہی بتا سکتا ہے جو یہ دس دن گزار چکا ہو، کمزور انسان کے لئے یہ دس دن انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہوسکتے ہیں، اندازہ لگائیں کہ ہمارا ان دس روز میں زندگی کا صرف ایک ہی مقصد رہ گیا تھا کہ یہاں سے کیسے نکلیں گے؟پچھلے کوئی اڑھائی تین ماہ سے پاکستان کو بھی برطانیہ نے ریڈ لسٹ میں ڈال رکھا ہے، پاکستان سے آنے والوں کے لئے میرا مشورہ بلکہ درخواست ہے کہ اگر وہ انگلینڈ آنا چاہتے ہیں تو جب تک پاکستان ریڈ لسٹ سے نکل نہ آئے یہاں آنے کا سوچیںبھی مت اور اگر ان کے لئے یہ سفر بہت ضروری ہے تو میرے تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور آنے سے پہلے خود کو ’’دس دن کی قید‘‘ کے لئے آمادہ اور پوری تیاری کے ساتھ آئیں، پھر اگر آپ نے یہ دس دن بخیریت گزار لئے تو آپ غازی ورنہ.....

ہمارا تو وہ حال ہوا کہ بقول منیر نیازی؎

اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

تازہ ترین