• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے زرداری اور شریف خاندان کو ہٹانا ہوگا، فواد چوہدری


کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو آگے لے جانے کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ زرداری اور شریف فیملی سے پاکستان کی جان چھوٹے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے زرداری اور شریف خاندان کو ہٹانا ہوگا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو تگڑا ہونا چاہئے اور ان جماعتوں سے زرداری اور شریف خاندان کے کنٹرول کا خاتمہ ضروری ہے۔

آصف زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ،پنجاب میں زرداری کا برا حال ہے وہ جس بندے کوووٹ دیں گے وہ مائنس 10ہزار ووٹ میں چلے جائے گا، زرداری اور شریف فیملی نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ڈسٹرکٹ کی جماعتیں بنا دیا ہے۔

اسامہ بن لادن کو شہید کہنا زبان کی لغزشی تھی وزیراعظم وضاحت کرچکے ہیں ، آج امریکا یہاں سے جارہا ہے تو پیچھے ایسا افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے جس میں امن نہیں ہوگا جس میں کوئی حکومتی ڈھانچہ نہیں ہوگا یہ تو بحیثیت سپر پاور امریکا کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ 

جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور مشرقی اور مغربی بارڈر پر درپیش چیلنجز سے متعلق بات ہوگی ۔ 

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کو آگے جانا تو ایک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ زرداری اور شریف فیملی سے پاکستان کی جان چھوٹے ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو تگڑا ہونا چاہئے زرداری اور شریف فیملی کاکنٹرول ان پارٹیوں سے ختم ہونا چاہئے۔ 

زرداری کا پنجاب میں اس وقت حال یہ ہے کہ وہ جس بندے کو ووٹ دیں گے مائنس دس ہزار ووٹ میں چلا جائے گا۔جس بندے میں تھوڑی بہت بھی سیاسی عقل ہے وہ ان کا ٹکٹ نہیں لے گا۔ہر وقت عمران خان کو کوس کر پی ٹی آئی کو گالیاں نکال کر آپ بڑے نہیں ہوسکتے۔ 

آپ کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ہم نے کہاں کہاں غلطیاں کیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب پاناما کا کیس ختم ہوا تو فیصلہ محفوظ ہوا۔ تو عمران خان چھٹیاں گزارنے نتھیا گلی چلے گئے ۔ ان سے وہاں میں نے افغانستان سے ا ن کانقطہ نظر بڑی تفصیل سے سنا۔

ان کاماننا تھا کہ ہمیں شروع سے افغانستان کے سیاسی حل پر زور دینا چاہئے ۔جب ہم خودایک سائٹ پر ملوث ہوگئے توسیاسی حل دینے کاجوہمارا کام ہوسکتا تھا ہم وہ نہیں دے پائے اس کی وجہ سے پاکستان کی پوزیشن کمپرومائزڈ ہوگئی۔

یہ موقف کے طالبان کو فتح ہونی چاہئے یا یہ کہ کسی اور کو ہونی چاہئے اس تفصیل میں وہ کبھی بھی نہیں گئے۔عمران خان کی سوچ افغانستان کو لے کر پاکستان کی بہت ساری لیڈر شپ سے کافی مختلف ہے ۔

نواز شریف اور زرداری افغانستان کو اس طرح سے نہیں سمجھتے جس طرح سے عمران خان سمجھتے ہیں۔کیونکہ عمران خان کی سیاست قبائلی علاقوں کے ساتھ بہت گہری جڑی ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کی اندرونی لڑائیوں میں تو بالکل بھی نہیں پڑنا چاہئے۔افغانستان کے اندر پاکستان مفاد اتنا ہی ہونا چاہئے جتنا کسی اور ریاست سے پاکستان کا مفاد ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں باقی لیڈر شپ کنفیوژڈ ہے کبھی ہم کہتے ہیں ہمیں گہرائی چاہئے۔ عمران خان کا اختلاف یہ تھا کہ آپ اپنے علاقوں میں فوجیں نہ بھیجیں اور اس کے سیاسی حل کی طرف نہ جائیں یہ عمران خان کی مستقل رائے ہے۔

ہم نے اپنی 90فیصد سرحد پر باڑ لگادی ہے ہم نے بند کرلیا ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم امریکا کو فوجی اڈے نہیں دیں گے تو دوسری طرف ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ ہم یہاں کی زمین افغانستان کے متحارب گروپوں کو بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

اگر افغانستان میں خانہ جنگی کے باعث مہاجرین ہماری سرحد پر آتے ہیں تو ہمارے لئے ان کو روکنا بڑا مشکل ہوجائے گا ہماری معیشت اتنی مستحکم نہیں ہے کہ ہم اس سارے بحران کو سنبھال سکیں۔ طالبان کا وہاں پر برسر اقتدار آنے کا جو طریقہ کار ہے وہ سوائے لڑائی کے کچھ نہیں ہے لہٰذا لڑائی ہم چاہتے نہیں ہیں۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو ہم کنٹرول کرتے ہیں ہم کنٹرول نہیں کرتے ہیں ہمارا ان کے اوپر اثر ہے اس اثر کو ہم نے استعمال کیاہم نے ان کو امریکا کے ساتھ گفتگو کے لئے بٹھا دیا۔ہم نے اس اثر کو استعمال کیا ہم نے افغان حکومت کے ساتھ ان کی بات کرائی۔ طالبان کے سارے جنگجو پاکستان میں تو نہیں ہیں ساری لڑائی تو افغانستان میں ہورہی ہے۔

افغان حکومت اورطالبان نے یا جو متحارب دھڑے ہیں انہو ں نے اپنے معاملات خود طے کرنے ہیں۔ہم تو افغانستان میں گارنٹی نہیں کرسکتے کہ یہ جو طالبان گروپ ہیں اس پر مانیں گے ۔ 

ہمارا تو اشرف غنی پر بھی کوئی اثر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک علیحدہ ملک ہے علیحدہ سیاسی قیاد ت ہے ۔ عمران خان، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کابل گئے ۔ہم نے اشرف غنی کو اپنی یقین دہانی اور تعاون جو ان کو ہم دے سکتے تھے ہم نے ان کو دیا۔

ٹی ٹی پی کی ساری لیڈر شپ اس وقت افغانستان میں ہے اگر ہم اس بات پر جائیں کے ٹی ٹی پی کی ساری قیادت آ پ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے ۔ بلوچستان میں دھماکے ہوئے ان کی لیڈر شپ کہاں گئی یہ افغانستان کے علاقوں میں گئے ہیں۔ہم کابل میں ایک مشتمل حکومت کے حامی ہیں۔

تازہ ترین