• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام کو بالواسطہ یا بلاواسطہ افسر شاہی سے کام پڑتے رہتے ہیں، خواہ وہ علاقے کی صفائی ہو، ترقیاتی کام ہوں یا پھر امنِ عامہ کی صورتحال اور جان و مال کا تحفظ وغیرہ ہو۔ چاروں صوبوں کا کلچر مختلف ہے اس لئے وہاں کام کرنے والی افسر شاہی کے رویے اور عوام سے برتائو کا طریقۂ کار بھی تھوڑا مختلف ہے۔ پنجاب کی افسر شاہی دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہے جس کی دو تین وجوہات ہیں۔

ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پنجاب کے افسروں کے نمبر زیادہ ہیں اور سی ایس ایس کی سلیکشن میں بھرتی ہونے والے زیادہ تر پنجاب سے ہی ہوتے ہیں۔ ان کا چونکہ قبلہ پنجاب ہی ہوتا ہے اور یہاں ان کے تعلقات ہوتے ہیں اس لئے اگر وہ سی ایس ایس سلیکشن کے بعد کسی دوسرے صوبے میں تعینات ہو بھی جائیں تو ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوبارہ پنجاب آکر تعینات ہوں، جو کہ غلط ہے۔ اگر پاکستان سول سروس کا انڈین سول سروس سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انڈین سول سروس میں جب کوئی نیا افسر تعینات ہوتا ہے تو اُس پر لازم ہے کہ وہ جس ریاست کا باشندہ ہے وہاں تعینات نہیں ہوگا۔ وہ افسر دوسرے صوبے میں تعینات ہوتا ہے اور وہیں ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اب پاکستان سول سروس میں کوئی پٹھان افسر بھرتی ہو تو وہ خیبر پختونخوا، سندھی افسر سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی افسر شاہی اپنے صوبے میں ہی نوکری کرنا چاہتی ہے۔ بلوچستان کے حالات تھوڑے مختلف ہیں کیونکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے افسر اکثر پنجاب یا دوسرے دوصوبوں میں نوکری کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔ بیورو کریسی میں ایک طرح کا STRUCTURAL IMBALANCEہے ۔تاریخی طور پر پنجاب کی بیورو کریسی تگڑی رہی ہے جس میں سوسائٹی کا بڑا کردار ہے۔ اس معاشرتی فرق کا اندازہ کچھ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ کے پی میں لوگ کافی حد تک برابری کے قائل ہیں۔ پٹھان بےشک ڈرائیور ہو، وہ افسر کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے جبکہ پنجاب میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ پنجاب میں بیورو کریسی مضبوط ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد شروع میں زیادہ تر بیورو کریٹس کا تعلق پنجاب سے تھا اور ان کی ترجیحات میں ڈی ایم جی گروپ جسے آج کل پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ کہتے ہیں، رہا ہے۔ پہلے تو پنجاب میں صوبائی سول سروس جسے پی سی ایس کہا جاتا تھا، وہ پوری طرح ڈی ایم جیز کے زیر اثر تھی لیکن اب حالات تھوڑے مختلف ہو گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے باوجود فیڈریشن کیوں مضبوط ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ 18ویں ترمیم تو لے آئے لیکن اسے اس کی اصل روح کے مطابق تسلیم نہیں کیا۔ آپ وفاق سے چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، آپ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کی باتیں تو کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وفاق کے پاس پیسے نہیں رہے لیکن پرانا (PRO CENTERIST)مائنڈ سیٹ اب بھی موجود ہے۔ 18ویں ترمیم کی اصل روح تو یہ ہے کہ صوبے اپنی بیورو کریسی خود بنائیں گے۔ اگر صوبے کا چیف سیکرٹری وفاق لگائے گا تو وہ اپنی سروس کو ہی پروموٹ کرے گا۔

اگر کل کو کہیں صوبائی سول سروس کا چیف سیکرٹری لگ جائے تو سوچیں کہ کتنی تبدیلیاں آئیں گی کیونکہ وہ اپنی سروس کو تگڑا کرے گا۔ پنجاب میں اس وقت صوبائی سول سروس سے تعلق رکھنے والے انتظامی سیکرٹریوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے کیونکہ صوبے کا ٹاپ مین (چیف سیکرٹری) فیڈریشن لگاتی ہے۔ فیڈریشن پنجاب کے چیف سیکرٹری کے ذریعے مائیکرو فنانس کر رہی ہے اور وزیراعلیٰ کی بجائے بیورو کریسی سے کام اور رپورٹس لی جاتی ہیں جس کی وجہ سے پنجاب کی افسر شاہی بہت مضبوط ہے۔ اس ڈائیکاٹومی آف پاور کے مثبت اثرات مشکل سے ہی ہوں گے۔ صوبہ چلانا اگر وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کی ذمہ داری ہے تو پھر پنجاب بیورو کریٹس کے ذریعے کیوں چل رہا ہے؟ کوئی شک نہیں کہ ریاست کو چلانے میں وفاق کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ سب سے اہم کردار ہوتا ہے لیکن صوبوں میں بیوروکریٹس سے ڈائریکٹ ہو کر مائیکرو مینجمنٹ کے مثبت اثرات سامنے نہیں آ رہے۔ پنجاب کے آئینی سربراہ وزیراعلیٰ ہیں اور ان کی کابینہ اپنے صوبے کا اچھا بُرا خوب سمجھتی ہے۔ اگر حکومت اپنا کام بخوبی سرانجام دے سکتی ہے تو پھر بیورو کریسی کے ذریعے کام کروانے کا پراکسی طریقہ نکال لینا شاید مناسب نہیں کیونکہ اپنے ہی لوگوں اور حکومت پر بہرحال اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

براہِ راست احکامات سے چیف سیکرٹری اب پراکسی بن چکے ہیں جو پنجاب کے لئے شاید اتنی اچھی خبر نہیں۔ سندھ میں بھی کسی نہ کسی حد تک وفاقی کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ ضرور ہوتی ہے کیونکہ آئی جی اور چیف سیکرٹری وفاق نے ہی لگانا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں دوسری جماعت کی حکومت ہونے کی وجہ سے حالات قدرے مختلف ہیں۔ وفاقی سول سروس کے افسروں کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تعینات کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ طاقتور رہتے ہیں۔ اگر صوبائی سول سروس EXISTہی نہیں کرے گی اور ایک خاص حد تک محدود ہو جائے گی تو پھر ایسا ہی ہوگا اور صوبائی سول سروس کا کوئی چیف سیکرٹری کسی صوبے میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ بیورو کریسی بلاشبہ اہل اور قابل افسروں کا مجموعہ ہوتی ہے جنہیں بخوبی علم اور ادراک ہوتا ہے کہ ملک کو کیسے چلانا ہے لیکن صوبوں کی سیاسی قیادت بھی نچلی سطح تک عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اس لئے زیادہ بہتر ہی ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ اعتماد میں لیکر چلایا جائے تاکہ عوام کی اصل حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں مدد مل سکے۔ پراکسی طریقہ کارسے حکومت چلانے میں عوام کو وہ ریلیف نہیں مل سکتے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

تازہ ترین