پاکستان میں یو ں تو اکثر اداروں میں یونین اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں لیکن واپڈا جیسے بڑے ادارے میں واپڈا ہائیڈر والیکٹرک ورکرز لیبر یونین کا رول انتہائی اہم اور مثبت چلا آرہا ہے اس کے روح رواں خورشید احمد کا اہم کردار ہے جن کے نقش قدم پر باقی رہنما چلتے ہیں اور ورکرز کے مسائل روزانہ کی بنیاد پر حل کئے جاتے ہیں ،واپڈا جو کبھی منافع بخش ادارہ تھا سیاسی اوربیور وکریسی کی بے جا مداخلت سے تباہی کے دہانے آکھڑا ہو اہے ،واپڈا کو مرحلہ وار توڑ دیا گیا وہی واپڈا جو سالانہ 10 ارب روپے کا منافع کماتا تھا ، ہر سال اربوں روپے کے سستے ترین ہائیڈل منصوبے لگائے جاتے تھے سیاسی غلط فیصلوں کے نتیجے میں ہائیڈل پیداوار سے سازش کے تحت اسے تھرمل مہنگے ترین منصوبوں پر منتقل کر دیا گیا اور بجلی جو کبھی ایک سے دوروپے فی یونٹ تھی صارفین سکون سے بجلی استعمال کرتےتھے۔صنعت کا پہیہ تیز تر رواں تھا آج گھریلو بجلی کا یونٹ 22 روپے ہو گیا جبکہ کمرشل 28 روپے اور صنعتی فی یونٹ ٹیرف 18 روپے کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے
ہر سیاست دان ،حکمران نے صرف اپنی 5 سالہ حکومت کو طول دینے کے لئے مہنگے تیل کوئلے اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس لگاتے رہے واہ واہ ہوتی رہی لیکن افسوس عوام کا سا نس لینا دشوار کر دیا گیا ہے۔ عام آدمی جو کبھی بل دے لیتا تھا ایک اے سی چلاتاا تھا اور بچوں کو رات کو سکون کی نیند آجاتی تھی اب ایک اے سی ایک ماہ میں 25 ہزار روپے بل دیتا ہے
ہم نےواپڈا ہائیڈرو لیبر یونین کے مرکزی رہنمائوں سیکرٹری جنرل خورشید احمد اور ظہور اعوان سے گفتگو کی
جنگ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے موجودہ دور تک پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک سنٹرل لیبر یونین محنت کشوں کے حقوق کی جدو جہد میں ہمیشہ سے مثالی کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے اس یونین کو بہت سے معاملات میں پریشان کن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن میں سب سے بڑا اور پیچیدہ مسئلہ کمپنیوں کی نجکاری کا درپیش ہے؟
جواب:پاکستان تیسری دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں کے عوام کی بھاری اکثریت بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ جہاں کے باسیوں کو خوب، تنگ نظری، نفرت، نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کے الجھائو میں بری طرح پھنسایا گیا ہے جہاں کی تہذیب، ادب، ثقافت اور تعلیم عوامی طرزِ حیات کو بڑھا وا دیتی ہے تاکہ حکمران طبقے کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک کبھی پروان نہ چڑھ سکے۔
اسی جہان میں مغرب ہے جہاں کے عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں جہاں سماجی تحفظ اور فلاح و بہبود کی صورت میں ہر شہری کو پالنے سے قبر تک ہر طرح کی ضروریات زندگی، تعلیم، صحت، روزگار اور رہائشی سہولتیں میسر ہیں۔ جہاں تعلیم و تربیت کا معیار بلند اور خواندگی کی شرح قریب قریب صد فی صد ہے۔ جہاں تہذیب و ثقافت کی روشن خیالی، خرد افروزی اور جمہوری اقدار کی آبیاری کی گئی ہے۔ جہاں معاشرہ انتہائی منظم اور ہر طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے فعال ادارے موجود ہیں۔ جہاں محنت کش طبقہ طویل جدوجہد اور مسلسل قربانیوں کی روایات کا امین ہے جس کی پشت پناہی کے لیے طاقتور اور منظم مزدور تحریک موجود ہے
ہماری یونین کی بنیاد فعالیت اور حرکت پذیری پر رکھی گئی ہے۔ جوانسانی دوستی اور اجتماعی قدروں کی امین ہونے کے ساتھ انتہا پسندی سے اجتناب کرتی ہے لیکن موجودہ دور میں محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حکومتوں کی غلط اور غیر مدبرانہ پالیسیوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم یف کو پاکستان کے پالیسی ساز اداروں میں نقب لگانے کا موقع فراہم کر دیا ہے پہلے پہل پاکستان کے مضبوط اور فعال ترین محکمہ واپڈا کو کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے بعد ان کمپنیوں کی نجکاری کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ ہماری یونین نے نجکاری کے خلاف پر امن بھرپور جدوجہد جاری رکھی اور انشاء اللہ یہ جدوجہد جاری رہے گی۔
ہماری یونین واپڈا کے محنت کشوں کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کرتی چلی آرہی ہے لیکن افسوس اس بات کا کہ اس کے مقابلے میں ایک اور نام نہاد یونین کو کھڑا کر دیا گیا انہوں نے واپڈا کے محکمے کا رخ کر لیا۔ آج کل یہ نام نہاد مزدور قائدین محنت کشوں میں تقسیم پید ا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اس طرح کوششیں کسی مرحلہ پر بھی محنت کشوں کے لیے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں
جنگ:یہ بتائیے کہ ہائیڈرویونین کے ممبران کی تعداد ہمیشہ بہت زیادہ رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ واپڈا کا محنت کش طبقہ اس یونین سے مطمئین رہا ہے پھر یہ کون سا طبقہ یا محنت کش ہیں جو آپ کی مخالف یونین کو سپورٹ کر رہے ہیں؟
جواب: ہماری یونین نے ہمیشہ اپنے محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے، ہماری جدوجہد میں کبھی بھی غنڈہ گردی، اور دھونس کا عنصر شامل نہیں رہا ہم نے کبھی بھی کرپشن میں ملوث محنت کش کی پشت پناہی نہیں کی۔ ہم نے کبھی بھی افسران کو مجبور نہیں کیا کہ کسی کرپٹ، نا اہل، غیر ذمہ دار یا بد تمیز کارکن کو ریلیف دیں جبکہ ہماری مقابل یونین اس طرح کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملا کر افسران کو دھونس و دھاندلی کے ساتھ اور ڈرا دھمکا کر ریلیف دلانے میں پیش پیش رہی ہے۔ جسکی وجہ سے اس طرح کے لوگ ہماری یونین کو چھوڑ کر اس کے کیمپ میں چلے گئے تاکہ اپنی کرپشن جاری رکھ سکیں۔
جنگ:آپ کی یونین نے مقابل یونین کو ہرریفرنڈم میں شکست سے دوچار کیا ہے ابھی حال ہی میں ریفرنڈم16جون کو لیسکو میں ہوا ہے اس میں بھی آپ کی یونین حسب سابق فاتح قرار پائی ہے۔ یہ بتائیے کہ یہ ریفرنڈم کمپنی کی سطح پر کیوں ہو ا ہے؟
جواب:سب آگاہ ہیں کہ محکمہ بجلی ملک کی ترقی اور معاشی استقامت کی بنیادی اکائی ہے ہماری یونین نے ہمیشہ محکمہ بجلی کو منافع بخش ادارہ بنے رہنے میں محنت کشوں کی پرخلوص جدوجہد پر زور دیا ہے ہمیشہ دانش مندانہ حکمتِ عملی اختیار کی ہے اب صورت حال یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت پاکستان کے پالیسی ساز اداروں نے یہ رویہ اپنایا ہے کہ نجکاری کے عمل کو رکوانے میں ہائیڈرو یونین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی ہے۔
اس کی مدِمقابل نام نہاد یونین کی جانب سے کمپنی کی سطح پر ریفرنڈم کرانے کا کھیل کھیلا جاتا ہے جبکہ اس کھیل میں اس طرح کی نوسربازی اللہ کے فضل و کرم اور مخلص محنت کشوں کے اتحاد سے ناکامی سے دوچار رہی ہے۔ 16جون 2021ء کو ریفرنڈم این آئی آر سی کے ایک متنازع فیصلے کی بدولت لیسکو میں منعقد ہو ئی اور الحمدللہ حق کو حسبِ سابق فتح نصیب ہوئی جبکہ مقابل نام نہاد یونین کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
این آئی آر سی کے متنازع فیصلے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور وہاں بھی عدلیہ نے این آئی آر سی کے کمپنی کی سطح پر ریفرنڈم کرانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔
جنگ: ہائیڈرو یونین کمپنیوں کی نجکاری جس پر حکومت وقت آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر کھڑی ہے کیاقدام کرنے جارہی ہے؟
جواب:ہماری یونین اپنے محنت کش کارکنوں کے ساتھ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دبائو میں نجکاری کے عمل کو ہر صورت میں ناکام بنائے گی۔ حکومت کے پاس کے۔الیکٹرک کی مثال موجود ہے جو بری طرح نجکاری کے بعد ناکام ہو چکی ہے۔ہم حکومت سے دانش مندانہ رویہ اپنانے پر زور دیں گے اور چاہے کوئی بھی حربہ نجکاری کے لیے بروئے کار لایا جائے محکمہ بجلی کے محنت کش اپنے منافع بخش ادارے کو کبھی بھی سرمایہ داروں کو فروخت نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کو مدبرانہ رائے دیں گے کہ واپڈا کی تمام کمپنیوں کو ختم کر کے ماضی کی طرح ایک وفاقی محکمے میں ضم کر دیں تا کہ محنت کش ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو سکیں اور پنے محکمے کی اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اس سے عام طبقے اور محنت کشوں کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، لہذا ہم اپنے حکمرانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ افراد کی پنشنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح کم از کم پچاس فیصد اضافہ کریں ۔
ظہور اعوان کا کہنا ہے کہ ملک میںخوشحالی ا س وقت تک ممکن نہیں جب تک سستی بجلی نہیں کی جائے گی۔ ورکرز نے ہمیشہ اپنا کام پورا کیا دن رات، بارش، آندھی میں بجلی کی بحالی کے لئے بھر پور کام کیا ،ورکرز کو ان کا حق دیا جائے یقیناً واپڈا کو اپنے پائوں پر کھڑا کر کے دکھا سکتے ہیں۔
ظہور اعوان نے ایک اہم ایشو کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے 1990 کی دہائی میں ایسے معاہدے کئےجو قوم کی بربادی کا باعث بنے ہیں آئی پی پیز سے ان معاہدوں کی وجہ سے آج عام آدمی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہے کھربوں روپے اضافہ سالوں سے یہ کمپنیاں ہم سے لے رہی ہیں کیوں کہ ان معاہدوں میں ایسی شقیں شامل کی گئیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ارباب اختیار نے اربوں روپے ر شوت لی اور کک بیکس لیکر یہ معاہدے کئے اور قوم کو چند روپے والی بجلی آج 20 روپے فی یونٹ سے اوپر پڑتی ہے انھوں نے کہا کہ ہر سال 900 ارب روپے بجلی لیں یا نہ لیں کیپیسٹی چارجز کی مد میں ان کمپنیوں کو ادائیگیاں کردی جاتی ہیں ۔
جو ظلم ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بجلی دنیا بھر کے مقابلے میں مہنگی ترین ہے ،خدارا وزیر اعظم عمران خان اس قوم کے لئے آگے بڑھیں اور نجکاری کو روکنے کے ساتھ ساتھ ان معاہدوں کو ریوائز کرائیں تاکہ بجلی سستی ہو سکے ،50 ہزار میگاواٹ سستی بجلی کی گنجائش موجود ہے پانی ہوا سورج کوئلے سے سستی بجلی بنانے کے معاہدے کئے جائیں وگرنہ عام آدمی روٹی کھانے سے عاجز ہے ،دکان دار کاروبار کرنے سے پریشان ہیں اور صنعت کار مہنگی بجلی کا بل دینے کے قابل نہیں رہا ،یہ آئی پی پیز پاکستان کی ترقی کی راہ میں سےبڑی رکاوٹ ہیں۔ واپڈا ہائیڈرو لیبر یونین نے تب بھی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ یہ معاہدے قوم کو گروی رکھوانے کے مترادف ہیں باز رہیں آج بھی ہم کہتے ہیں کہ ڈسکوز کی نجکاری سے صوبے تباہ ہو جائیں گے ایسا نہ کیا جائے
ظہور اعوان نے کہا کہ موجودہ چیف لیسکو چوہدری محمد امین اور کسٹمر سروسز ڈائریکٹر بشیر احمد کمپنی کو آگے لے جانے میں دن رات کوشاں ہیں ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ورکرز ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ،ریکوری اور بجلی کی بحالی سمیت تمام اقدامات کو بر وقت پورا کر کے لیسکو کو بہترین کمپنی بنانے میں ان کا ساتھ دیں گے۔