اسلام آباد(ایجنسیاں)قومی اسمبلی میں نئے مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ اور ترمیم شدہ فنانس بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔بجٹ منظوری کے موقع پرمسلم لیگ ن کے14ارکان غائب رہے ۔ پیپلز پارٹی کے 56 میں سے 54 اراکین ایوان میں موجود تھے جبکہ 2 ارکان کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باعث غیر حاضر رہے۔فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ آئے اور 138 ووٹ تحریک کے خلاف آئے۔ حکومت کی پانچ ترامیم منظور جبکہ اپوزیشن کی کٹوٹی کی تمام تحاریک کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ‘ وزیراعظم عمران خان‘آصف زرداری‘ بلاول بھٹو ‘پروڈیکشن آرڈر پر سید خورشید شاہ اور علی وزیر نے خصوصی طورپر شرکت کی تاہم قائد حزب اختلاف شہباز شریف اوربی این پی (مینگل ) کے سربراہ اخترمینگل اجلاس میں شریک نہیں ہوئےجبکہ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جب تمام آبادی کو صحت کارڈ ‘40 لاکھ لوگوں کو گھر ملیں گے‘ زراعت اور کاروبار کے لئے سود سے پاک قرضے فراہم ہوں گے تو اس سے ملک میں خوشحالی آئیگی اور اپوزیشن فارغ ہو جائے گی۔ دوسری جانب ایوان میں اظہارخیال کرتے ہوئے خورشیدشاہ ‘علی وزیر‘نفیسہ شاہ ‘خرم دستگیر ‘قیصر شیخ ودیگر اپوزیشن ارکان کا کہناتھاکہ عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لگادیاگیا ‘غریب کی زندگی مشکل ہوگئی ہے‘حکومت نے من مانی کی ، مہنگائی کا طوفان آئیگا‘دنیاآگے ہم پیچھے جارہے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو قومی اسمبلی کا اجلا س ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا بعد میں اسپیکر اسد قیصر نے صدارت کی۔اجلاس کے دور ان وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس ترمیمی بل 2021-22 پیش کیا تو اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت کی۔ ایوان نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کی زبانی منظوری لی جسے نواب تالپور نے چیلنج کردیا جس کے بعد اسپیکر نے گنتی کرنے کی ہدایت کی ۔ایوان میں گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک کو شق وار کثرت رائے سے منظور کرلیا۔جس کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے بل کی شق وار منظوری کیلئے مسودہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوا اور اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کیلئے وائس ووٹ کیا اور بجٹ کو منظور کر لیا گیا۔اپوزیشن نے وائس ووٹ کی مخالفت نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس اسے مسترد کرنے کیلئے درکار ووٹ نہیں ۔اجلاس کے دوران فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا بھی اضافہ کیا گیا اور حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی ،ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی کو اب ائیر ٹکٹس کے بجائے واؤچر دئیے جائیں گے۔نئی شق کے اضافے کی ترمیم رانا قاسم نون نے پیش کی ۔اسلم بھوتانی کی ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز لیپس نہ ہونے کے بارے میں ترمیم کو بھی منظور کرلیا گیا۔ تین ترامیم شوکت ترین نے پیش کیں۔شق 203 اےمیں ترمیم کردی گئی- فائلرکی ٹیکس چوری 10 کروڑسےزائدہوئی توگرفتاری ہوگی- نان فائلرکی ٹیکس چوری ڈھائی کروڑسےزائدہوئی توگرفتاری ہوگی- شق 203 اےمیں گرفتاری کمیٹی کی منظوری سےہوگی۔گرفتاری وزیرخزانہ،چیئرمین اورسینئر ممبر ایف بی آر کی اجازت سےمشروط ہوگی ۔ پولٹری فیڈپرسیلزٹیکس میں 7 فیصدکمی کی ترمیم پیش کی گئی ۔ پولٹری فیڈسیلزٹیکس 17کےبجائے 10فیصد کردیا گیا۔ چھوٹی گاڑیوں پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی میں ڈھائی فیصدکمی کی گئی ہے۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ آج غریب کیلئے ادویات خریدنا مشکل ہے‘ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا،ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آئے گاکیونکہ جو کام ہورہا ہے اسپتال اور بندے کے درمیان ہے‘ کھاد کسان کی قوت خرید سے باہر ہے‘حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہے ‘یہ بعدمیں پریشان ہوتے پھریں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر کا کہناتھاکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس میں امیر اور غریب سب کو برابر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ ہو اور لوگوں کا اعتماد اداروں پر قائم ہو۔کاروباری طبقہ پہلے ہی قومی احتساب بیورو (نیب) سے تنگ ہے اور اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیے جا رہے ہیں‘ موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعوؤں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔ٹیکسیشن کے نظام کو سہل بنانا پڑے گا کیونکہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ایس آر اوز سے پارلیمان کی بالادستی کو نقصان پہنچ رہا ہے،نواب یوسف تالپور نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو ریلیف نہ دیا گیا تو معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔مسلم لیگ (ن)کے رکن علی پرویز ملک نے کہا کہ کپاس اور بنولہ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس سے کاشتکاروں کا نقصان ہوگا اور کپاس کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔مسلم لیگ (ن)کے رکن قیصر احمد شیخ نے کہا کہ اس ایوان میں اسمبلی کے آغاز پر قائد حزب اختلاف نے میثاق معیشت کی پیشکش کی، اس خواہش کو غلط سمجھا گیا، ملک کے مفاد میں سب اس پر تیار ہیں،تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ آزاد رکن علی وزیر نے کہا کہ ضم شدہ فاٹا کے اضلاع کو دیگر اضلاع کے برابر لانے کے لئے مناسب بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔نفیسہ شاہ نے فنانس بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فنانس بل میں افسوسنا ک بات ہے کہ تمام اختیارات ایف بی آر کو دے کر ایف بی آر کوبھی نیب بنانے جارہےہیں۔ اوور آل پالیسی میں کیا کرنے جارہے ہیں یہ کلیئرنہیں ہے۔ کیا آپ بزنس کو پروموٹ کرنے جارہے ہیں زرعی شعبہ کو ترقی دینے جارہے ہیں واضح نہیں ہے۔خرم دستگیر نے کہا کہ کاغذ کے محل پر بحث کی جس کو بجٹ کہا گیا یہ دستاویزات حکومتی دیوالیہ پن کوظاہر کرتا ہے۔ فیڈرل خسارہ میں دو سو تراسی ارب اضافہ ہوگا۔ فنانس بل کا ستر فیصد ان ڈئریکٹ ٹیکسز ہے اپ غریب کے گرد پھندا تنگ کر رہے ہیں۔ خرم دستگیر نے فنانس بل پر بات کرتے ہوے کہا یہ فنانس بل مہنگائی کی سونامی لارہا ہے۔یہ فنانس بل بھوک غربت کی سونامی ہے۔مالی بل 22۔ 2021پر پہلی خواندگی کے موقع پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ مالیاتی بل میں ترامیم پربحث ہوگی تاہم اس کی بجائے ہمیں تقریریں دیکھنے کو ملیں۔74سالہ تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے لئے روڈ میپ دیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے ماضی میں بھی لگائے گئے تھے، موجودہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا،بجٹ میں جو اہداف دیئے گئے ہیں ہم انہیں پورا کرکے دکھائیں گے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ غذائی افراط زر میں اضافہ ہوا ہے،زراعت میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ہم چینی، گندم، دالوں اور دیگر غذائی اشیا کی درآمد پر زرمبادلہ صرف کر رہے ہیں۔