اس وقت یورپی ممالک مسلمانوں سے سائنسی لحاظ سے صدیوں آگے نکل چکے ہیں۔ لیکن ایک دور تھا جب یورپ اور امریکہ تاریکی میں ڈوبا ہوتا تھا او ر تمام ایجادات و دریافتیں مسلم ممالک میں ہوا کرتی تھیں۔ مسلمان سائنسی اور ثقافتی دریافت کے روشن باب رقم کر رہے تھے۔
اس دور کو یورپ والے یورپ کو "ڈارک ایجز " کے نام سے یاد کرتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کا یہ دور درخشندہ تھا۔ آج ہم نوجوانوں کوان علوم میں سے چند کے بارے میں بتا رہے ہیں ،جنہوں نے آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی اور ہر کوئی آج ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انسانی تاریخ کے سب سے اہم ترین دور سے مستفید ہو رہا ہے۔
عوامی کتب خانے
مسلمان کتابیں جمع کرنے اور کتب خانے قائم کرنے کا ازحد ذوق و شوق رکھتے تھے۔ اکثر بڑے شہروں کی مساجد میں عوامی کتب خانوں کا سلسلہ قائم تھا، اس کے علاوہ ذاتی ملکیت میں بھی قیمتی کتب کے ذخائر موجود ہوتے تھے۔عوامی سطح پر کتابوں کے ذخائر اس قدر وسیع پیمانے پر دستیاب تھے کہ کوئی مسجد ان کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ مسجد کے کتب خانوں کو ’ دارالکتب‘ یعنی ’کتابوں کا گھر‘ کہا جاتا تھا اور وہ تعلیم اور دانشوارانہ سرگرمیوں کے مرکز تھے۔
۱۲۵۸ میں منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے قبل بغداد میں ۳۶ کتب خانے اور ۱۰۰ سے زائد کتب فروش تھے۔ شام کے شہر حلب میں’سیفیہ‘ کے نام سے سب سے بڑا اور قدیم ترین کتب خانہ شہر کی جامع مسجد امیہ میں قائم تھا ، جس میں دس ہزار سے زائد کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا ۔ ہسپانیہ کے اموی حکمرانوں کے پاس قرطبہ کے عظیم کتب خانہ میں چھ لاکھ سے زائد کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔۱۰۵۰ میں قاہرہ کو الازہر کتب خانے میں ۱۲۰,۰۰۰ سے زائد کتابیں تھیں، جن کا اندراج تقریباََ۳,۵۰۰ صفحات پر مشتمل ۶۰ نسخوں کی ضخامت رکھنے والی فہرست میں کیا تھا۔
جامعات
مسلمانوں میں ابتدائی تعلیم کی سادہ ترین قسم وہ تعلیم تھی جو مساجد میں دی جاتی تھی، جو بتدریج اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں تبدیل ہوگئیں۔ مسلم دنیا کے طول وعرض میں جدید علوم کی تعلیم مساجد، مدرسوں، رصد گاہوں اور علماء کے گھروں میں دی جاتی تھی۔
فاطمہ الفہری ایک عرب خاتون تھیں، جنہوں نے ۸۵۹ ءمیں فاس، مراکش کے مقام پر القرویّین مسجد کی بنیا د رکھی، جس میں تعلیم کا سلسلہ بتدریج تمام مضامین تک وسیع ہوگیا۔ مسلمانوں نے اعلیٰ تعلیم کو باقاعدہ ادارے کی حثیت دی۔ مسلم دنیا میں داخلہ امتحانات، حتمی امتحانات، ڈگری سرٹیفکیٹس، مطالعاتی حلقے، بین الاقوامی طلباء اور حکومتی امداد، سب ہی کچھ موجود تھا۔ مسلمانوں کی یہ علمیت وفضیلت بارہویں صدی میں اس وقت یورپ پہنچی جب بڑے پیمانے پر عربی کتب کالاطینی زبان میں ترجمہ شروع ہوا۔ مغربی یورپ کی پہلی یونیورسٹی کا قیام گیارہویں صدی میںسیلر نو، اٹلی کے مقم پر عمل میں آیا۔
ریاضی
مسلمان علما نے ریاضی میں نمایاں ترکی کی اور نئے تصورات اور خیالات معارف کروائے۔ عرب مسلمانوں نے تقریباً آٹھویں صدی میں ہندی، عربی ہندی نظام سے پہلی بار 0.9 تک کے تمام ہندسے اختیار کیے، جو ہم آج استعمال کرتے ہیں۔
الجبرا کے موجد فارسی ریاضی دان الخوارزمی کو دڈنیا کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اعداد کی قدر بیان کرنے کے لیے حروف اور دیگر غیر عددی علامات کے استعمال کی تکینیک اپنائی، جو ایک انقلابی قدم تھا اور یونان کے اس تصور ریاضی سے بالکل الگ تھا جس کی بنیاد جیومیٹری پر تھی۔
دسوی صدی کے عرب ریاضی دان ابوالحسن الاقلیدسی نے اپنی کتاب میں، جو ریاضی کی باقی رہ جانے والی اولین کتب می سے ایک ہے، کسر کے بجائے اعشاریہ کے استعمال کی نشاندہی کی۔ تیرہویں صدی کے ماہر فلکیات، سائنسدان اور ریاضی دان نصیرالدین طوسی غالباً وہ پہلے ریاضی دان تھے جنہوں نے علم مثلثات (Trigonometry) پر ریاضی کے ایک علیحدہ نظم کے طور پر کام کیا۔
ریاضی میں ان کا ایک نمایاں کارنامہ سادہ مثلث کے لیے سائنز (Sines) کے مشہور قانون کی تشکیل ہے۔ عمر خیام کی بطور شہرت کی وجہ سے بعض لوگوں نے سائنسی میدان میں ان کی کامیابیوں کو فراموش کردیا جو کہیں زیادہ بڑی تھیں۔ وہ ایک عظیم ریاضی دان اور ماہر فلکیات تھے اور الجبرا پر ان کے کام کو قررون وسطی میں پورے یورپ میں جانا جاتا تھا۔
نوجوانوں کو تاریخی معلومات فراہم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جو یہ سمجھتے ہیں کے جتنی بھی سائنسی ایجادات ہوئیں ہیں اس کاسہرا یورپین سائنسدانوں کو جاتا ہے اور وہ ان سے بہت متاثر ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، سائنسی علوم ہوں یا جغرافیہ، ریاضی، طب اور دیگر مختلف علوم سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی ان کو ترقی کے مدارج تک پہنچایا تھا۔ ان ہی کی معلومات کو سیڑھی بنا کر یورپی ممالک نے ان علوم کو جدیدیت کا حامل بنا کر آگے پیش کیا، اس لیے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی اس تاریخ پر فخر کریں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محنت، لگن اور بھر پورتوجہ سے تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک کا نام روشن کریں۔