لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس کے خلاف عابدہ پروین اور دیگر کی دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے تمام درخواستوں پر اعتراضات دور کرتے ہوئے فل بینچ بنانے کی سفارش کردی ہے اور پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس کے تحت دیے گئے قبضوں کو واپس کر دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو بتائیے کہ یہ قانون رہ گیا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں نکل جائے گا۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ ایڈووکیٹ جنرل کیوں نہیں آئے؟ جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیمار ہیں، اس لیے نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں، مجھے بیڈ ریسٹ کہا گیا ہے مگر یہاں بیٹھی ہوں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ لگتا ہے آپ نے یہ قانون نہیں پڑھا؟ لگتا ہے کچھ لوگوں کی خواہش ہے انہیں تمام اختیارات دے دیے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے یہ قانون بنا کیوں ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ معاملہ سول کورٹ میں زیرسماعت ہو تو ریونیو آفیسر کیسے قبضہ دلا سکتا ہے؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے مزید کہا کہ آپ نے سول سیٹ اپ، سول رائٹس کو ختم کردیا، آپ نے عدالتی سپرمیسی کو ختم کردیا، آپ کا بس چلتا تو آئین کو بھی معطل کر دیتے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ ڈی سی آپ کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے دیں تو آپ کے پاس اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا، آپ کا قانون یہ کہتا ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملے پر حکم امتناعی بھی نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ موبائل فون پر آپ کہتے ہیں آجاؤ ورنہ تمہارا قبضہ چلا گیا، آپ یہاں کھڑے ہیں اور آپ کا گھر جارہا ہوگا؟ قانون کے مطابق جس نے شکایت کردی وہی درخواست گزار ہوگا، کیا یہاں جعلی رجسٹریاں اور جعلی دستاویزات نہیں بنتیں؟