• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ باتیں ذومعنی انداز میں ہوتی ہیں، چین سے تعلقات ختم کرنے کیلئے کسی نے کھل کر نہیں کہا، شاہ محمود قریشی


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑنا چاہیں گے، کسی نے کھل کر چین سے تعلقات ختم کرنے کیلئے نہیں کہا یہ انداز اور ذومعنی باتیں ہوتی ہیں، اس وقت چین کو محدود کرنا امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے،افغان معاملات میں مداخلت کررہے ہیں نہ ہمارا کوئی فیورٹ ہے۔

ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ افغانستان میں حالات خانہ جنگی کی طرف جاسکتے ہیں، اس صورتحال میں پاکستان کی معیشت مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی، پاکستان کے گرد بہت سنگین خطرات منڈلارہے ہیں ہمیں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم پہلے بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے کتراتے رہے ہیں، میرے علم میں اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ کوئی مس کمیونی کیشن نہیں ہے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں تجاوزات کیخلاف آپریشن کے ہزاروں متاثرین کی ری سیٹلمنٹ کا معاملہ حل ہو کر نہیں دے رہا ہے۔ 

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہشمند ہے اور افغانستان میں استحکام چاہتا ہے، پاکستان ہرگز نہیں چاہے گا کہ کابل پر چڑھائی یا قبضہ ہوجائے، افغان حکومت اپنے رویے میں لچک دکھائے اور طالبان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرے، طالبان کا افغان سرزمین سے غیرملکی فوجوں کا انخلاء کا مطالبہ جلد پوراہوجائے گا۔

اب افغانوں نے مل بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے،ہم افغان معاملات میں مداخلت کررہے ہیں نہ ہمارا کوئی فیورٹ ہے،جو فیصلہ افغان عوام کریں گے ہم اسے من و عن قبول کریں گے،اس چیلنج سے نبردآزما ہونا افغانوں کا امتحان ہے۔ 

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خلا کا فائدہ منفی قوتیں اٹھاسکتی ہیں، افغانستان میں خانہ جنگی سے دہشتگرد نیٹ ورکس کو تقویت ملے گی، پاکستان اس صورتحال میں جو کچھ کرسکتا ہے کررہا ہے، ہم بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے اور سرحد پر باڑ لگانے کے ساتھ فوج کی تعیناتی بھی کررہے ہیں۔ 

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے معاملہ پر سفارتکاری جاری رکھے ہوئے ہے، افغان مسئلہ پر گرد و نواح کے ممالک سے رابطے اور مشاورت جاری ہے، میری حال ہی میں ایرانی وزیرخارجہ سے ملاقات ہوئی ہے، اس کے علاوہ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے بھی مل کر آرہا ہوں، روس اور تاجکستان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں بھی افغان معاملہ پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا بلڈ بیک بیٹر ورلڈ پراجیکٹ بنانا چاہتا ہے تو شوق سے بنائے، امریکا یہاں سرمایہ کاری کرناچاہتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، سی پیک پر فیصلہ اور قومی اتفاق رائے ہوچکا ہے ہر صورت آگے بڑھائیں گے ، کسی کو پسند ہو یا نہ پسند ہو سی پیک منطقی انجام تک پہنچے گا، سی پیک پاکستان کی ضرورت اور تجارت و توانائی کا کوریڈور ہے، سی پیک میں رخنہ اندازی کے خدشات ہیں اسی لیے سیکیورٹی انتظامات کیے ہیں، ہندوستان اور دیگر قوتیں سی پیک کے منصوبے سے خائف ہیں۔ 

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین ہمار آزمایا ہوا دوست ہے اس کے ساتھ دوستی برقرار رکھیں گے، ہم چین کے دوست ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم امریکا کے مخالف ہیں، چین نے ہمیں کبھی امریکا کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کیلئے نہیں کہا ہے۔

ہم امریکا کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑنا چاہیں گے، کسی نے کھل کر چین سے تعلقات ختم کرنے کیلئے نہیں کہا یہ انداز اور ذومعنی باتیں ہوتی ہیں، اس وقت چین کو محدود کرنا امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 

ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ قومی سلامتی اجلاس کے شرکاء کی فہرست میں کہیں وزیراعظم کا نام درج نہیں تھا، اپوزیشن نے ایک دن پہلے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا خطاب سنا تھا تو ہمیں کیا بے چینی ہوتی، حکومت ہر چیز کو سیاست زدہ کر کے متنازع بنادیتی ہے۔

قومی سلامتی کے اجلاس میں بھی فواد چوہدری نے اپوزیشن پر تنقید کی جسے ہم نے نظرانداز کردیا، اپوزیشن اتنے تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے تو قومی سلامتی میٹنگ میں وزیراعظم کی شرکت کی کیوں مخالفت کرے گی۔ 

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پہلے بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے کتراتے رہے ہیں، میرے علم میں اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ کوئی مس کمیونی کیشن نہیں ہے، وزیراعظم کو قومی سلامتی سے متعلق اجلاسوں میں شریک ہونا چاہئے تاکہ قومی یکجہتی کا پیغام جائے۔

پاکستان کے گرد بہت سنگین خطرات منڈلارہے ہیں ہمیں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، حکومت کی پالیسیاں ملک میں پولرائزیشن اور سیاسی و سماجی سطح پر تنہائی بڑھارہی ہیں، افغانستان میں حالات خانہ جنگی کی طرف جاسکتے ہیں، اس صورتحال میں پاکستان کی معیشت مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ 

میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔

اجلاس کے بعد جاری وزارت اطلاعات کے اعلامیہ کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور بعد کی صورتحال، مقبوضہ کشمیرا ور داخلی معاملات پر بریفنگ دی،ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کے ساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔

پاکستان کی بھرپور کاوشوں کی بدولت نہ صرف مختلف افغان دھڑوں اور گروپوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی بلکہ امریکا اور طالبان کے درمیان بھی بامعنی بات چیت کا آغاز ہوا، اجلاس کوبتایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیرمقدم کرے گا۔

اجلاس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا صحافیوں کے سوال پر کہنا تھا کہ امریکا کو اڈے نہیں دیں گے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کی عدم شرکت تنازع بن گئی ہے۔ 

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے جمعرات کو کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ اجلاس میں صرف دفاعی اور قومی سلامتی کمیٹی کے اراکین شریک ہوں گے،جمعے کو فواد چوہدری نے بتایا کہ وزیراعظم اجلاس میں شرکت کیلئے آرہے تھے اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر کو پیغام بھیجا کہ وزیراعظم آئیں گے تو وہ واک آؤٹ کریں گے اسی لیے وزیراعظم نہیں آئے۔

ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے فواد چوہدری کے جواب میں اجلاس کے شرکاء کی فہرست ٹوئٹ کی جس میں وزیراعظم کا نام شامل نہیں ہیں، مریم اورنگزیب نے لکھا کہ عمران خان میٹنگ کا حصہ ہی نہیں تھے تو شہباز شریف نے کیسے منع کردیا۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت اور نیب آمنے سامنے آگئے ہیں، نیب کے دعوؤں میں تضاد نظر آرہا ہے اور حکومت بھی اپنی تمام ناکامیاں نیب پر ڈالتی نظر آرہی ہے، تین دن پہلے وزیراعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے نیب کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے، پھر نیب نے تابش گوہر کے الزامات کے جواب میں کچھ دعوے کیے۔

ان میں سے نیب کے اکثر دعوے حقائق اور دستاویزات کے مطابق درست نہیں ہیں، نیب نے قطر سے ایل این جی معاہدے کا نوٹس لینے کی تردید کی، لیکن ہمارے پاس نیب کا 20اپریل 2021ء کو سیکرٹری پٹرولیم کو لکھا گیا ایک خط موجود ہے۔

اس خط کے مطابق نیب قطر سے ایل این جی امپورٹ کرنے کے معاملہ میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی تحقیقات کررہا ہے اس لیے قطر کے ساتھ حالیہ ایل این جی کے معاہدے کی مصدقہ کاپی فراہم کی جائے۔

ہم نے یہ خط نیب ترجمان کو بھیجا اور اس کی تصدیق کیلئے کہا تو انہوں نے اس خط کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور صرف قطر کے ساتھ نئی ایل این جی ڈیل کے حوالے سے معلومات مانگی گئی تھیں، حالانکہ نیب نے اپنی پریس ریلیز میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ نیب قطر کے ساتھ حالیہ معاہدے کے بارے میں نوٹس لینے کے حالیہ بیان کی سختی سے تردید کرتا ہے لیکن اب نیب نے خود تصدیق کردی ہے کہ انہوں نے خط لکھ کر تفصیلات مانگیں اور تحقیقات کا کہا تھا۔ 

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ہم نے نیب ترجمان سے پوچھا کیا نیب نے اینگرو ٹرمینل کی اضافی کیپسٹی کے حوالے سے خطوط لکھے ہیں؟ ہم نے انہیں نیب کے دو خطوط بھیجے جو نیب نے وزارت پٹرولیم اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو لکھے تھے، نیب نے پہلے چار مارچ کو سیکرٹری پٹرولیم کو خط لکھا جس کے مطابق نیب ایل این جی ٹرمینل کے معاملہ کی تحقیقات کررہا ہے۔ 

نیب راولپنڈی سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور دیگر کے خلاف احتساب عدالت میں ضمنی ریفرنس دائر کرچکا ہے، ملزم شاہد خاقان عباسی نے اپنی ضمانت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کو ہدایت کی کہ وزارت پٹرولیم سے ٹرمینل کی توسیع کے معاملہ کی تصدیق کرے۔

اس لئے یہ بتائیں کیا وزارت پٹرولیم نے ٹرمینل ون میں توسیع کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی ہے؟ پھر 12مارچ کو نیب نے سوئی سدرن گیس کے ایم ڈی کو خط لکھا ، نیب نے اس خط میں وزارت پٹرولیم کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ نیب کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیں۔ 

ہم نے یہ خطوط نیب کو بھیجے تو ترجمان نیب نے لکھا کہ ہم نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ٹرمینل کی اضافی صلاحیت استعمال کرنے سے نہیں روکا اور نہ ہی ٹرمینل کی اضافی کیپسٹی کے حوالے سے خط لکھا، یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ہم مشیر توانائی کا بیان مسترد کرچکے ہیں۔

تازہ ترین